موجودہ اور پچھلی حکومت میں نیب ترامیم سے مستفید افراد کے نام سامنے آگئے

اسلام آباد: پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں حکومتوں میں نیب ترامیم سے جن جن سیاست دانوں کو فائدہ پہنچا ان کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کردی گئیں۔

تحریک انصاف کی حکومت میں 2019 سے لیکر جون 2022 تک نیب ترامیم کے بعد 50 نیب ریفرنسز واپس ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کیخلاف 9 نیب ریفرنسز پی ٹی آئی دور میں واپس ہوئے ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف 2 نیب ریفرنسز واپس ہوئے،سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کیخلاف دو نیب ریفرنسز واپس ہوئے۔ شوکت ترین پر بطور شریک ملزم اختیارات کے غلط استعمال کا الزام تھا۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں سابق رکن اسمبلی گلگت بلتستان جاوید حسین، لیاقت علی جتوئی، سابق گورنر کے پی مہتاب احمد خان ، سابق وزیر صحت گلگت بلتستان گلبہار خان کیخلاف نیب ریفرنسز واپس ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق فرزانہ راجہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کیخلاف نیب ریفرنسز بھی پی ٹی آئی حکومت میں واپس ہوئے۔

حالیہ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نوازشریف، فرزانہ راجہ، یوسف رضا گیلانی، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔

سابق وزیراعظم شوکت عزیز، ظفر گوندل، صادق عمرانی، نواب اسلم رئیسانی، لشکری رئیسانی، اسفند یار کاکڑ، ارباب عالمگیر، عاصمہ ارباب عالمگیر، شیر اعظم وزیر کو بھی نیب ترامیم سے فائدہ پہنچا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ اگر پارلیمنٹ قانون میں ترمیم سے کسی سزا کی نوعیت تبدیل کر دے تو اس کا اطلاق سزا یافتہ پر ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سزائے موت کے قانون کو ختم کر کے عمر قید کر دیا جائے تو کیا تمام مجرمان کی سزا بدل جائے گی؟ کیا نیب ترامیم بنیادی حقوق کے سوا باقی آئینی شقوں سے متصادم ہونے پر کالعدم ہو سکتی ہیں؟، کیا سپریم کورٹ کسی قانون سازی کے پیچھے ممبران پارلیمنٹ کی نیت کا تعین کر سکتی ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کئی فیصلوں میں کہا گیاکہ کسی پر بدنیتی کا الزام لگانا سب سے آسان اور ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب ترامیم سے استفادہ ایک مخصوص طبقے نے حاصل کیا ہے؟۔

وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ نیب ترامیم سب کے لیے ہیں، ان سے کسی مخصوص طبقے کو فائدہ نہیں پہنچا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ممکن ہے عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ نیب ترامیم سے فائدہ ان ہی کو ہوا جو حکومت میں ہیں، جب بھی کوئی نیا قانون پہلے سے موجود آئینی شقوں سے متصادم ہو تو کالعدم ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے بھی کہا کہ مقننہ نے عدلیہ کو کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل 9 فروری تک ملتوی کردی۔