اسلام آباد: پنجاب اور کے پی میں انتخابات التوا کرنے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کا چار رکںی بینچ ٹوٹنے کے بعد اب تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت شروع ہونے سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل اس سے پہلے آپ کچھ کہیں جسٹس جمال خان مندو خیل کچھ کہنا چاہتے ہیں، جسٹس جمال خان مندو خیل بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے جبکہ کل جسٹس جمال خان مندو خیل بینچ میں شامل ہونے پر رضامند تھے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں کل کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہ سکا۔
قبل ازیں، سپریم کورٹ کے تشکیل دیے گئے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے جبکہ سپریم کورٹ نے باقاعدہ کیس کی کاز لسٹ بھی جاری کی تھی۔
بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس جمال خان مندو خیل کا اختلافی نوٹ بھی سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالتی حکمنامہ کورٹ میں نہیں لکھوایا گیا اور مجھ سے حکمنامے پر مشاورت بھی نہیں کی گئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو عدالت میں زیر توجہ لانے کی ضرورت ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مجھ سے فیصلہ لکھواتے ہوئے مشاورت نہیں کی گئی اور شاید مجھ سے مشورے کی ضرورت نہ تھی یا اس قابل نہ سمجھا گیا، اللہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے اور جو بھی بینچ بنے ایسا فیصلہ ہو جو سب کو قبول ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب آئین کے پابند ہیں اور 15 کے 15 ججز آئین کے پابند پیں۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال خان مندو خیل کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تھوڑی دیر میں نئے بینچ کی تشکیل کریں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کی بات مکمل ہوئے بغیر ہی ججز اٹھ کر چلے گئے۔
کمرہ عدالت میں تین کرسیاں لگا دی گئی ہیں۔ عدالتی عملہ، وکلاء، سیاسی رہنما اور صحافی کمرہ عدالت میں موجود ہیں جہاں ججز کی آمد کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
معاون خصوصی وزیراعظم عطا تارڑ
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ اگر بینچ ایسے ہی ٹوٹتے اور بنتے رہیں تو ادراے کی ساکس کا کیا ہوگا، چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ فل کورٹ بینچ بناتے۔ پوری قوم اس معاملے پر رنجیدہ ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ آج بینچ پر وکلاء کے تحفظات تھے اور بینچ کی تشکیل کے بعد اعتراض اٹھایا گیا، سماعت سے پہلے سرکلرز کے ذریعے ججز کے آرڈر کی نفی غلط ہے، اگر ایسے فیصلے ہوئے ادارے کی ساکھ کیا رہ جائے گی اور قوم اس ون مین شو کو قبول نہیں کرے گی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ تمام کرائیسز کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہونا چاہیے، مندوخیل نے دکھی دل سے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کی حفاظت کرے، سرکلر کا رواج پہلی دفعہ دیکھا ہے، قوم پہلے ہی مسائل میں مبتلا ہے مل کر بیٹھیں اور مسائل حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل اب لازم ہو گئی ہے، اگر فل کورٹ نا بنایا گیا تو اس معاملے میں مزید طول ملے گا اور ہم چاہتے ہیں سپریم کورٹ کی بقا بحال رہے، ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے لیکن دو تارڑ آئین کی پاسداری کے لیے کھڑے رہیں گے، اج معاملات سجاد علی شاہ ٹو کی طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سرکلر جاری
دوسری جانب، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر بھی جاری کر دیا ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
رجسڑار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا سرکلر جاری کر دیا ہے۔
سرکلر کے مطابق جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا اور اس انداز میں بینچ کے سوموٹو لینے کو پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں اس لیے فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔