عینی ملک کی کتاب ”اے کاش“ پر تبصرہ

شاعری ایک بہت ہی مقبول صنف ہے- شعر اپنے جذبات اور احساسات بیان کرنے کا بہت مؤثر ذریعہ ہے-شاعری کے ذریعے انسان اپنی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے، دوسروں کو متاثر اور قائل کرتا ہے اور کبھی کبھی شاعری اس قدر درد بھری اور تلخ حقیقت پر مشتمل ہوتی ہے کہ سُننے اور پڑھنے والے کے سیدھا دِل پر جا لگتی ہے-
گزشتہ دنوں ایک پیاری اور چھوٹی سی لڑکی عینی ملک کی شاعری کی کتاب شائع ہوئی – جس کا عنوان تھا:” اے کاش-“عینی ملک شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ کی رہنے والی ہیں- انگلش لینگوسٹکس کی ہونہار طالبہ ہیں- آپ انگلش اور اُردو شاعری پڑھنے اور لکھنے کی شوقین ہیں- اِس جدید دور میں جب آج کے نوجوان کتابوں اور مطالعہ وغیرہ سے دُور نظر آتے ہیں،ایسے میں عینی ملک کی یہ کوشش بہت عمدہ ہے- کتاب کی اشاعت ایک انسان کے لیے بہت قابلِ فخر کارنامہ ہوتا ہے- اور عینی ملک بھی اب صاحبِ کتاب ہو گئی ہیں-
”اے کاش‘‘ عینی ملک کے، طویل و مختصر 71 نظموں کے مجموعے پر مشتمل ہے- جن میں بابا جانی، خاموش آنسو، میں اور چاند، سچی باتیں، در گذر، موتیا کے پھول، خاموشی، استاد، ہم عمر، ایک فوجی جوان کے نام ماں کا پیغام، اور شہید بیٹے کا ماں کو پیغام، کے علاوہ اصول چاہت، حسن اور محبت، یارم کے جنم دن کے موقع پر، خود غرضی، خود کلامی، اے زندگی، عجیب لوگ، اداس دل، خود سے ملنا چاہتی ہوں، امیدِ سحر، پاگل لڑکی، خدمتِ خلق، رات کے آخری پہر، دسمبر کی ایک رات، اے زندگی اداس ہے شکر گزاری اور اے کاش میں شامل ہیں- عینی ملک نے اپنی شاعری میں بہت گہرے لیکن سادہ الفاظ استعمال کئے ہیں جو ہر انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے- اُمید ہے کہ عینی ملک آئندہ بھی گہرے موضوعات پر شاعری کرتی رہیں گی-

اے کاش کتاب کی ایک نظم مجھے بےحد پسند آئی ہے-
”عورت ہوں میں“
ہاں میں عورت کا روپ ہوں
میں ماں کے روپ جنت بھی ہوں
میں بیٹی کے روپ میں رحمت ہوں
میں عزت و عصمت کا پیکر بھی ہوں
میں اس جہاں کی پہلی عورت حوا ہوں
میں پردہ عبادت کا روپ فاطمہ ظاہرہ ع ہوں
میں آسیہ ع اور مریم ع ہوں
میں عورت کے روپ میں رادھا بھی ہوں
مانا مرتبہ ہے میرا کہ
حقیقت میں مسکین بھی ہوں
زندہ مدفون بھی ہوں
آویزاں آج دیواروں پر ہوں
ٹی وی میں ہوں اخباروں میں ہوں
میں غموں کا اک عنوان بھی ہوں ہوں
کم ترسمجھا ہے میری ہونے کو
قابل نفرت وجود ہو میں
میں ماں ہو کر بھی ماری گئ
میں بہن روپ میں دُھتکاری گئ
سات دن کی معصوم ہو کر بھی میں ماری گئی ہوں
بیٹی کا پیارا روپ بھی ہوں
ماں باپ کے لیے غم کا بوجھ بھی ہوں
ہاں میں ہوں عورت
مردوں کی اس بستی میں ایک گناہ بھی ہو
ہاں میں عورت ہوں
اِس نظم کے الفاظ پڑھ کر کسی بھی نازک دل انسان کی آنکھوں سے آنسو چھلک سکتے ہیں- اِس نظم کے چند الفاظ میں عینی ملک نے عور ت کی ساری محرومیاں اور خصوصیات بیان کر دی ہیں- اس نظم میں وہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایک عورت ماں کے روپ میں جنت ہے- بیٹی کے روپ میں رحمت ہے- ایک عورت شرم وحیا اور عصمت کا پیکر ہوتی ہے- عورت کو اسلام میں بے حد عزت و احترام سے نوازا گیا ہے – لیکن حقیقت اِس کے بر عکس ہے- عورت کو وہ مقام آج تک معاشرے سے نہیں مل پایا جو اسلام نے اُسے بخشا ہے- آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے ہیں- آج کے معاشرے میں عورت سراپأ غم ہے- کہیں وہ ماں بن کر اپنے بچوں کے لئے قُربانی دے رہی ہے- کہیں بیٹی بن کر اپنے والدین کی عزت کا پاس رکھ رہی ہے- کہیں بہن بن کر دُھتکاری جا رہی ہے – کہیں معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے- کہیں ناجائز طریقے سے اگر لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو ساری زندگی وہ ایک گالی بن کر رہ جاتی ہے- تمام عمر اُس کو ایک گناہ کا نام دیا جاتا ہے- بھلا اُس کا کیا قصور تھا؟
الغرض عینی ملک نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اِس نظم میں معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے- میری دُعا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سے عینی ملک کے جیسے اور بھی لوگ آگے آئیں اور اپنے خیالات کا کُھل کر اظہار کریں –
دُعا ہے کہ عینی ملک مزید کامیابیاں سمیٹیں – اور اسی طرح معاشرے کے تلخ حقائق کو بیان کرتی رہیں –
خُدا اُن کا حامی و ناصر ہو- آمین-