اسلامی جمعیت طلبہ آزاد کشمیر وگلگت بلتستان کا19ستمبر سے 30نومبر تک طلبہ حقوق مہم چلانے کا اعلان

مظفرآباد(نمائندہ خصوصی)اسلامی جمعیت طلبہ آزاد کشمیر وگلگت بلتستان نے 19ستمبر سے 30نومبر تک طلبہ حقوق مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔گزشتہ روز مرکزی ایوان صحافت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ کے صدر راجہ حارث خان، صدر ضلع نیلم راجہ انور خورشید، صدر جامعہ مظفرآباد اظہار الحق، صدر جہلم ویلی مصطفی قاضی ودیگر نے کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ گزشتہ 35سال سے آزاد کشمیر کے طلبہ کے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔طلباء یونینز پر غیر اعلانیہ پابندی طلبہ کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہیں اور یہ بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ 19ستمبر سے 30نومبر تک طلبہ کے حقوق کیلئے تمام اضلاع ڈویژن ہاء مختلف مقامات پر حقوق طلبہ مہم اور طلبہ کنونشن منعقد کیے جائیں گے۔جس میں طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کے علاوہ یکساں تعلیمی نظام جامعات کی فیسوں میں بے پناہ اضافے اور سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل کو اجاگر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر اور جی بی متنازعہ علاقہ ہے اسلامی جمعیت طلبہ واحد تنظیم ہے جس نے تنظیمی طور پر جی بی کو اپنے ساتھ منسلک کر رکھا ہے۔جی بی کشمیر کی اکاہی ہے۔آزاد کشمیر میں میڈیکل کالجز جامعات میں جی بی کے طلبہ کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور ان طلبہ کو اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے انہیں ان اداروں میں اکاموڈیٹ کیا جائے۔ان کے لیے ہر شعبہ میں تین سے چار نشستیں ہونی چاہیں۔پاکستان نے جی بی کے طلبہ وطالبات کے لیے یونیورسٹیز اور کالجز میں باقاعدہ کوٹہ رکھا ہوا ہے بدقسمتی سے جی بی میں اس وقت کوئی یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز موجود نہیں۔ٹیکنکل ادارے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔انہوں نے جامعہ کشمیر کی فیسوں میں بے پناہ اضافے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مختلف فنڈز کے نام پر سمسٹر فیس میں طلبہ کے والدین کو لوٹنا بند کیا جائے اور ان اداروں کی اپ گریڈیشن کی جائے۔جامعہ جہلم ویلی کیمپس اور نیلم ویلی کیمپس میں تاحال مکانیت اور سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں۔ان کیمپس میں تمام سہولیات فوری فراہم کی جائیں۔طلبہ کا ایک بڑا لشکر ہر سال اپنی تعلیم مکمل کر کے باہر آتا ہے مگر ان کے لیے روزگار کا ریاست کی جانب سے کوئی بندوبست نہ ہونے لمحہ فکریہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح ہر شعبہ زندگی جیسے سرکاری ملازمین صحافی وکلاء ٹرانسپورٹ تاجروں کی یونینز موجود ہیں تو طلبہ کی یونینز پر پابندی کیوں۔انہوں نے کہا کہ درآصل سیاسی لیڈر شپ نہیں چاہتی کہ نئی لیڈر شپ سامنے آئے۔طلبہ یونین اگر بحال ہو جاتی ہیں تو اس فرسودہ سیاسی لیڈر شپ کے بجائے نوجوان قیادت سامنے آجائے گی۔انہوں نے طلبہ یونین کی بحالی اور یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں مختلف نظام تعلیم تفریق کا باعث بن رہا ہے۔حکمرانوں نے جان بوجھ کر احساس محرومی اور طبقاتی نظام کو رائج کر رکھا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ تینوں ڈویژن بشمول جی بی میں الگ الگ تعلیمی بورڈ قائم کیے جائیں اگر ہمارے مطالبات پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔جس میں مظفرآباد میں دھرنے کا اعلان بھی شامل ہو سکتا ہے اور آئندہ کیلئے سیاسی بنیادوں پر اداروں کا قیام بند کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جامعات بے پناہ مسائل سے دو چار ہیں۔جامعات اور کالجز میں جنسی حراسانی کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں جامعہ کے ٹیچر کو پیپر چیک کرنے اور مارکنگ کے بے پناہ اختیارات اس کا سبب ہیں۔اگر ٹیچر کو اختیارات دیئے ہیں تو اس پر چیک اینڈ بیلنس بھی ہونا چاہیے۔بلیک میل کرنے والے اساتذہ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے انہوں نے ان گندی مچھلیوں کو نکیل ڈالنے کا بھی اعلان کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ اس تعلیمی نظام میں پیپر کی تھرڈ پارٹی سے چیکنگ کا نظام لاگو کیا جائے تاکہ ٹیچر کی بلیک میلنگ سے طلبہ محفوظ رہ سکیں۔