مظفرآباد (سپیشل رپورٹر)آذاد جموں و کشمیر۔ڈرگ سیلز ایکٹ و رولز کے نفاذ کےلیے ہائیکورٹ میں پیٹشن دائر کر دی گئ۔ کشمیر فارماسسٹس کیطرف سے پیٹشن کی پیروی راجا جلیل عمر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس جناب جسٹس صداقت حسین راجا نے گزشتہ روز پیٹشن پر سماعت کے بعد حکومت کو ڈرگ سیلز رولز کو تبدیل یا منسوخ کرنے سے روکتے ہوئے آئندہ تاریخ سماعت 24 فروری مقرر کی ہے۔ آزادکشمیر کے تمام اضلاع سے کوالیفائیڈ فارماسیسٹ کیطرف سے دائر پیٹشن میں موقف لیا گیا کہ فارماسسٹ کی اہمیت و افادیت جو کہ ملکی و انٹرنشنل سطح پر مسلمہ ہے اسے تسلیم کیا جاے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاے ۔آزادکشمیر کے تمام اضلاع سے کوالیفائیڈ فارماسسٹ جن میں محمد نعیم منہاس صدر کشمیر فارماسسٹس ایسوسی ایشن آذاد جموں کشمیر، محمد عبد القدوس ایگزیکٹو ممبر پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن، مسرور احمد سابق ڈرگ انسپکٹر ،خطیب رقیب ایگزیکٹو ممبر پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن، اسرار احمد ثانی فارماسسٹ، علی طارق فارماسسٹ، محمد انیس اکرم فارماسسٹ، بدر حسین فارماسسٹ ،محمد عارف فارماسسٹ، اویس مشتاق فارماسسٹ، ذوالکفل احمد نواز ایگزیکٹو ممبر پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کیطرف سے دائر پیٹشن میں موقف لیا گیا ہے کہ آزادکشمیر میں ڈرگ ایکٹ 1976 سال 1986 کو adopt کیا گیا مگر بدقسمتی سے 35 سال گزرنے کے باوجود آج تک نہ تو ڈرگ سیلز رولز کا مکمل نفاذ کیا جا سکا اور نہ ہی بہتری کی کوشش کی گئی اور نہ ہی آزادکشمیر میں ڈرگ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی بنائی جا سکی جبکہ آذاد کشمیر میں فارمیسی کونسل کا قیام بھی عمل میں نہ لایا جاسکا جو فارماسسٹس کی رجسٹریشن انکی ہیلتھ کیئر ٹیم میں شمولیت کے طریقہ کار کو وضع کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیسن کی سیلز اور مینجمنٹ کو ریگولیٹ کرتی۔
نئے ڈرگ سیلز قواعد 2021 کے تحت آزادکشمیر میں فارمیسی سروسز مینجمنٹ اور فارمیسی پریکٹس کے لیے پروسیجر دیا گیا ہے جسکے تحت فارماسسٹ کی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرتے ہوئے فارماسسٹس کو ہیلتھ کیئر سسٹم میں شمولیت کا موقع دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر فارمیسی کے لیے بھی فارماسسٹ کا ہونا لازمی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سٹینڈرڈ کے تحت کم از کم پچاس بیڈ پر ضلح و تحصیل کی سطح پر کم از کم ایک مستند کلنیکل فارماسسٹ کا ہونا لازمی ہے ۔ اور ہر ضلح و تحصیل ہیڈکوارٹر کی سطح پر ڈرگ انسپکٹر کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ صوبہ پنجاب میں ہے۔کشمیر میں آج تک فارمیسی کے قوانین کا نفاذ نہ ہونے دیا گیا ہے. قواعد کی روشنی میں9,10،,1 1اور 12 نمبر لایسنسز صرف رجسٹرڈ فارماسسٹ کو ہی دے جا سکتے ہیں ۔ پیٹشن میں یہ موقف لیا گیا کہ حکومت ڈرگ ایکٹ اور سیلز قواعد کے موثر نفاذ کےلیے ضروری اقدامات اٹھائے, جنمیں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کم ازکم تینوں ڈویژن میں قائم کی جائیں۔ سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال میں ہر پچاس بیڈز پر ایک کلنیکل فارماسسٹ کا تقرر لازمی قرار دیا جائے تاکہ ریاست میں مریضوں کو بہتر طبی سہولت مہیا کی جا سکے۔ فارمیسی پریکٹیس کو لازمی قرار دیا جائے۔ پیٹشن میں قانون دان راجا جلیل عمر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کے حوالہ سے اہم قانونی نکات اٹھائے ہیں جسکا براہ راست تعلق عوام کی زندگیوں سے جڑا ہے ۔ محکمہ صحت نے 40 سال بعد ایک بہتر اور قابل عمل ڈرگ سیلز قواعد 2021 حال ہی میں منظور کیے جنکے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کیے جانے تھے مگر چند عناصر ان قواعد کی منسوخی کے لیے بیک ڈور کاروائی کر ر ہے ہیں اور حکومت پر مختلف حربوں کے ذریعے قواعد کو منسوخ کرنے یا اپنی من مرضی کی ترامیم پر مجبور کر رے ہیں۔ جس کے باعث مفاد عامہ میں ہائیکورٹ میں رٹ فاہل کر دی گی ہے۔ ابتدائی دلائل کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ جناب جسٹس صداقت حسین راجا نے حکومت کو ان قواعد کی منسوخی سے روکتے ہوئے آئندہ تاریخ 24 فروری تک تبصرہ مانگ لیا ہے۔اس بارے میں صدر کشمیر فارماسسٹ ایسوسی ایشن آذاد جموں و کشمیر راجہ نعیم منہاس نے اپنا موقف دیتے ہوے کہا ہے کہ فارمیسی پروفیشن اور فارماسسٹ کے اصل و جاہز حقوق کے حصول تک جدو جہد جاری رکھی جاے گئ جو کہ نہ صرف پروفیشن و فارماسسٹ کیلے ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق عوام الناس سے ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ فارماسسٹس کی یہ جدو جہد کسی بھی پروفیشن کے خلاف نہ ہے۔آذاد کشمیر کے تمام فارمسسٹس ہیلتھ کیئر سسٹم میں اپنے حصے کا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں جسکی انہوں نے ملکی و غیر ملکی جامعات سے علمی وعملی تربیت حاصل کی ہے ۔ فارماسسٹس کے بغیر عوام کیلے ریاست میں بہتر طبی سہولیات کا حصول ناممکن ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ انکا ماننا ہے کہ ہر پروفیشن کی اہمیت و افادیت اس پروفیشن سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل کی علمی وعملی استعداد کار کی بنیاد پر ہونا چاہئے ۔صحت عامہ سے جڑے ہر پروفیشن کو ملکی و انٹرنشنل معیارات و قواعد و ضوابط کی بنیاد پر ڈھالنا اور قوانین کی ترتیب وتدوین اور نفاذ وقت کی اولین ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ آذاد کشمیر میں چار جامعات سے ہر سال فارماسسٹس اپنی تعلیم مکمل کر کے عملی میدان میں داخل ہو رہے ۔پاکستان میں ہزاروں بے روزگار فارماسسٹس اسکے علاؤہ ہیں۔سینکڑوں فارماسسٹس ریاست اور پاکستان میں روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے گلف،یورپ اور دیگر ممالک میں منتقل ہو رہے۔ جو کہ برین ڈرین ہے ۔ معاشی ماہرین , جامعات ,قانون ساز اداروں کو ضرورت سے مطابقت رکھتے ہوے پالسیسز ترتیب دینا چاہیے ۔ادویات کی بہتر ترسیل، سٹوریج ، ڈسپنسنگ اور پیشنٹ کونسلنگ کے علاؤہ ر یگولٹری افیرز، قومی صحت کے پروگرامز ، ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس میں فارماسسٹس کی موجودگی عوام کے لے ہیلتھ کیئر سسٹم کو مزید بہتر اور مفید بناے گا۔