تحریر : راجہ سیماب خان۔
آج سے ایک سال قبل 25 جون کا دن میرے لیے اور میرے خاندان کے کےلیے قہر بن کے نازل ہوا جب پیارے بابا جانی (راجہ محمد خوشحال خان) ہم سے ہمشہ کےلیے رخصت ہوۓ مگر محسوس ایسا ہو رہا ہےکہ جسیے آج ہی ہم سے جدا ہوۓہوں۔آہ انکی کمی تا عمر ہمیں سستاتی رہے گی۔۔بات جو سایہ دار درخت کی مانند ہوتاہے۔باپ چمکتے روشن سورج کی طرح ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں”
زندگی سے اگر رشتے نکل جائیں تو ہم کس قدر نامکمل اور ادھورے ہو جائیں اسی طرح ان رشتوں سے جڑے لفظ زندگی سے نکل جائیں تو زندگی کتنی بدمزہ کھوکھلی اور سنسان سی ہو جائے۔ کیونکہ لفظوں کا ذائقہ بھی ہوتا ہے اور احساس بھی۔ کچھ لفظ میٹھے ہوتے ہیں۔ کچھ کڑوے اور کچھ پُرتاثیر … کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ ایسے ہی پرتاثیر لفظوں میں ایک لفظ ہے ’’ماں’’ جسے سنتے ہی ہم محبت کے حصار میں بندھ جاتے ہیں… اور ایک لفظ ہے ’’باپ‘‘ اعتبار، اعتماد اور تحفظ کے حصار میں لے لینے والا جاندار لفظ۔ ابا جان، والد صاحب ،بابا جانی، ابو جان، پدر جان کیسے خوبصورت لفظ ہیں کہ خودبخود ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ہمت شفقت چاہت قربانی یکجا لکھوں
تو بابا جانی!! باپ کی رہنمائی، شفقت اور محبت کےبغیر ہماری ذات تو ذرۂ بے نشان کی مانند ہوتی ہے۔ باپ کا رشتہ عظیم نعمت خداوندی ہے۔ زندگی کے تپتے صحرا اور نفسانفسی کے دور میں ماں کے بعد باپ ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر پریشان اور بے چین ہو جاتی ہے۔ بظاہر رعب اور دبدبے والی اس ہستی کے پیچھے ایک شفیق اور مہربان چہرہ ہوتا ہے جسے ماں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔ جو زمانے کے سرد و گرم برداشت کرتے ہوئے مسلسل ایک مشین کی طرح کام کئے جاتا ہے تاکہ اس کے جگر گوشوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ انکے چہروں پرہمیشہ مسکراہٹ رہے۔ انہیں کسی چیز کی کمی یا حسرت نہ رہے۔ شاید اپنے آپ کو بہت مضبوط ثابت کرنے کے لئے اپنے اوپر ایک رعب اور سختی کا خول چڑھائے رہتا ہے۔ جبکہ اپنے اندر پیار، محبت، ایثار، شفقت اور تحفظ چھپائے رکھتا ہے۔ ساری زندگی مسلسل کام اور صرف کام مجھے تھکنے نہیں دیتا ہے یہ ضرورت کا پہاڑمیرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتےیہی وہ عظیم باپ ہے جو اولاد کے سکھ، خوش حالی، تعلیم، صحت اور روشن مستقبل کی خاطر سخت محنت کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔ صبح سے شام تک رزق کی خاطر ہزار صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچوں کو دیکھتے ہی اپنی تھکن بھول کر ان کی ناز برداریاں کرنا والد ہی کا خاصہ ہے۔ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کے لئے ایسے ہی جیون تیاگتاہے خود اپنی ذات سے غافل ہوکر اپنی ہر ضرورت بھول کر اولاد کی ہر خواہش اور فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے اختیار میں ہو تو کسی بچے کی آنکھ میں ہلکی سی نمی بھی نہ آنے دے۔ ان کی زندگی میں کوئی تشنگی نہ رہنے دے اس کا بس چلے تو بچوں کی زندگی میں آنے والے غم مشکلات اور محرومیوں کو سمیٹ کر سمندر میں بہاد
آپ نے حسنِ سادگی و وقار کو مجسم دیکھا ہے ؟ میں نے دیکھا ہے ۔میرے پاس بیان کرنے کوبتانے کو اُن کی شخصیت کے اتنے رنگ ہیں کہ میرے ہاتھوں میں بکھر جاتے ہیں ، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے بیان کروں اُن کی شخصیت کے رنگوں کو۔ایک بہت ہی اعلی پائے کے کالمسٹ ،رائٹر اور ٹیچر تھے-
“یَلوح الخط فی القر طاس دھرا ، وکاتبہ رمیم فی التراب
انسان کی تحریر ابدالاباد تک باقی رہتی ہے جبکہ اسے لکھنے والا مٹی میں مل چکا ہوتا ہے ۔ “جی ہاں ابو ابوجی کی بھی روزہ مرہ کی لکھی گی ڈائریاں آج بھی موجود جہاں انہوں اپنی زندگی کے حالات و واقعات قلمبند کیے ہیں۔یہ ابوجی کا خاضہ تھا کہ زوزہ مرہ کی کاروائی کو قلمبند کیا جاۓ۔وقت کی پابندی پابندی اور پھر مختلف جہگوں پہ جانا لوگوں سے ملنا جلنا اٹھنا بیٹھنا خوشی غمی تمام حالات و واقعات انہی کی زبانی آج بھی محفوظ ہیں۔بحثیت استاد والدمحترم نے مثالی کردار ادا کیا اور اپنی محنت ولگن سے پیاسی کھیتی کو کوسیراب کیا۔بطورے استاد والد محترم نے علم کی کرنیں دور دور تک بکھرنے کی کوشش کی اور خواہش تھی کہ ان کا لگایا ہوا پودا تناور درخت بن کر دوسروں کو سایہ فراہم کرے۔۔ہمشہ مثبت سوچ رکھی ۔اپنے علاقے کے پڑھے لکھے نوجوان سے ایک خاص محبت رکھتے تھے اور ان انکے پاس بیٹھ کران سے علمی گفتگو کیا کرتے تھے آج بھی نوجوان انکی اس کمی کومحسوس کرتے کرتےہیں۔۔۔۔۔ والدمحترم شعبہ پغمبری سے وابستہ رہے۔۔۔۔۔۔والد والدمحترم نہ صرف ہمارے ہمارےلیے بلکہ اہل علاقہ اور خاندان کے لیے ایک چمکتا ہوا سورج تھے۔والد محترم نے بطورے استاد 3 سال نجی طور اور 39 سال سرکاری طور پہ قوم کی آبیاری کی۔آج بھی ان کے شاگردوں کے سامنے گفتگو کرو تو وہ بڑے فخر والد محترم کی پڑھائی کا احوال بیان بیان کرتے ہیں۔۔۔والد محترم ایک بہترین لکھاری بھی تھے اور آج کی ڈائریاں انکی لکھائی کا چشم و چراغ پھر انہی تیار کیے ہوۓ شاگرد بھی انکی عکاسی کرتے کرتےہیں۔۔۔۔شعبہ اردو ادب سے ان کا لگاؤ بھی بے بےمثال تھا۔۔۔
ادب اور رائٹر کے علاوہ ان سے روحانیت کی اتنی روشنی پھوٹتی تھی کہ میری آنکھیں چندھیا جایا کرتی تھیں ۔ یہ روشنی شاید ان کے کسب حلال ،محتاط رویے ،سچائی ،پاکیزہ اطوار، اصول پسندی، سادگی و عاجزی ،حد سے بڑھی ہوئی ایمانداری کا انعام تھی،رب کی جانب سے۔ ایسا اُجلا ،بھلا، نیک نفس انسان میں نے اب تک تو نہیں دیکھا اسلئیے نہیں کہ میں انکا بیٹا ہوں بلکہ اُنکی حیات اُنکے عزیز واقارب کے لئیے بھی مشعلِ راہ جیسی تھی ۔
“پھر اُنکے بعد چراغوں میں روشنی نا رہی”.. کلیوں کو میں سینے کا لہوں دے چلا ہوں… صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی۔۔۔۔۔
وہ بات کرتے تو گھنٹوں مکالمہ ہوتا؛ مذہب ،سیاست۔ادب،فلسفہ،ہر موضوع پر بات ہوتی،سوال ہی سوال۔اور کہا کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو علم و ادب اور سوالات وجوابات(مذہبی۔دینی۔ادبی اور جنرل نالج) کی محفل کیا کریں اور خود بھی کرتے تھے۔ جمعرات کو نعت خوانی ذکر اذکار اور دعاؤں حصوصی بندوبست انکا خاصہ تھا۔وال محترم کی ایک یہ بھی تھی کہ کسی غمی میں سب پہلے پہچتے جبکہ خوشی میں اسوقت تک نہ جاتے جب کوئی دعوت نہ دے۔۔۔۔۔ آہ ابّو ۔۔۔ بہت جلد چلے گئے اب ہی تو مجھے اُنکی صحیح ضرورت تھی والد محترم کی کی موت پہ بھی رشک آتا ہے کیوں نہ آۓ جس شخص کی ایمان داری لگن محبت اور سخاوت کی گواہی دنیا دے رہی ہو یقینا وہ ایک ولی ہی ہوتا ہے۔۔والد محترم کی موت عین اس وقت جب جمعرات کا آخری پہر تھا رات ختم ہو رہی تھی اور دن آ رہا تھا سحری 2 بجے والدمحترم کی روح پرواز کر کرگی۔۔۔۔والد محترم ہم سے الوادع ہو گے آہستہ!!!!ان کے جانے کے ہماری والدہ وہ دل ہیں کہ جس نے ہمیں زندہ رکھا ہوا ہے ۔ابا جی رح وہ سایہ تھے جس سے ہمای زندگی واقعی گل و گلزار تھی انکے بعد امی نے کوئی کمی نہیں رکھی ہر آسائش سکون مہیا کیا بلکہ ہماری دُنیا تو گھومتی ہی اپنی والدہ کے گرد ہے وہ کہتے ہیں نا “نیوکلئیس آف لائف” امی کے ہونے سے ہی سب بہاریں ہیں۔ لیکن باپ کا نعمل بدل تو کوئی نہیں ،انکی محبت و شفقت ،لاڈ کرنا ناز نکھرے اپنے انداز میں اُٹھانا ۔ گویا اُنکا جانا ایسا محسوس ہوا کہ ایک دم تپتی ریت پر قدم پڑ گئے ہوں جیسے ہر طرف آگ کی سی تپش ہو ، ایسے میں اللہ سبحانہ و تعالی نے میری والدہ کو ہمارا سائیبان بنا کے رکھا ہمارا سکون بنا کر رکھا یہ اللہ کا احسان ہے ۔(اللہ اُنکا سایہ ہمیشہ سلامت رکھیں صحت و عافیت کے ساتھ)ورنہ تو سب کھوکھلا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مگرقابلِ رشک ہے وہ قضائے الہٰی جو واحدتِ الہٰی کی گواہی دیتے ہوئے ہو یقیناً الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔براد الله مضجعها ونور الله مر قدها!
باپ ،ایک سایہ دار شجر کی طرح ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میں دُنیا میں جتنی بھی تعریفیں ،شاباشیاں وصول کرلوں لیکن جو احساس ابّو کی طرف سے کی گئی حوصلہ افزائی اور تعریفی کلمات کی وصولی پر ہوتاوہ کمی کبھی پوری نہیں ہو پاتی ۔ آج جہنتی بھی خوشیاں ملیں یاں ملتی ہیں سب ہمارے والدمحترم محنتوں اورایمان داری کا نیتجہ ہے۔۔۔۔۔
“وہ جسکی نگاہ برق اور چہرہ آفتاب تھا
وہ مجھ پر محبتوں کی بارش برسانے والا میرا باپ تھا”
میں آپ سب سے عاجزانہ طور پر درخواست کرتا ہوں کہ براہِ مہربانی والدمحترم کے لئیے سورہ فاتحہ ،درود اور قل پڑھ کر دُعاِ مغفرت کا اہتمام کردیں ۔۔۔۔۔ اللہ سُبحانہ و تعالی ابوجی کی قبر پر رحمتیں برسائےمیرے پیارے ابّو😢اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور سوہنی جنت کا وارث بناۓ۔۔۔۔۔۔
آسماں تیر لحد پر شبنم فشانی کرے
سبزہ بہ اس گھر کی نگہبانی کے
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ وعف عنہ اللہم ادخلہ الجنۃ الفردوس واجعل مقامہ مع النبیین والصدیقین والشہداء الصالحین آمین
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپُردِ خاک کیا !!!!!!!!بے شک۔۔۔۔