عنوان ملاوٹ معاشرتی برائی فوڈ اتھارٹی کی ناکامی

سید خطیب گردیزی

ھمارے گرد نواح میں آجکل اچانک اموات کا دکھ دہ سلسلہ تسلسل سے جاری ھے بالخصوص نوجوانوں اور کمسن بچے بڑی تعداد میں اس کا شکار ھو رے ھیں حکومت آزاد کشمیر یا کسی دیگر ادارے نے اس جانب کبھی نہیں سوچا کہ ایسا کیوں ھو رھا ھے اس کا زمہ دار کون ھے حالانکہ یہ امر سنجیدگی کا متقاضی ھے اس بات کی چھان بین کی جائے کہ ایسا کیوں ھو رھا اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ھوتا تو باقاعدہ تحقیقات ھوتیں اور زمہ داروں کا تعین کیا جاتا مگر جہاں ھم رھتے ھیں اس قسم کی سوچ کو ذھنی عیاشی تصور کیا جاتا ہے انسانی جان کی یہاں اھمیت اتنی نہیں ھے حالانکہ ایک فرد کی موت جس خاندان میں ھوتی ھے اس کا کرب وھی جانتے ہیں آج کل جتنا جینا مشکل ھے اتنا مرنا بھی معاشی حالات ایسے ھیں کہ زندہ رھنا بھی مشکل ھے اس پر مزید اگر کوئی ناگہانی وفات کسی منبہ میں ھو جاے تو وہ مقروض در مقروض ہو جاتا ھے سب سے بری بات یہ ھے ھم اپنی کوتاھیوں کو قدرت کے پلڑے میں ڈال دیتے ھیں اور اپنی۔ اور معاشرے کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اگر کوئی ان برائیوں کی نشاندھی کرے بھی تو اس کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا بلکہ مذاق اڑایا جاتا کسں معاشرے میں رے کر کس قسم کی باتیں کر رھا ھے حالانکہ آزاد حکومت نے فوڈ اتھارٹی کے نام پر ایک محکمہ بھی قائم کر رکھا ہے جس کی زمہ داری یہ ھے مارکیٹ میں غیر معیاری اشیائے خوردونوش کی نشاندھی کر کے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا اور سختی سے ان کی نقل و حمل کو روکنا مگر بدقسمتی سے دیگر اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی اپنی کار کردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے کبھی کبھار فوٹو سیشن کی حد تک کوئی کاروائی عٹ میں لائی جاتی ھے جس کا مقصد محض تشہیر ھےاگر یہی عمل اپنا فرض سمجھ کر اور معاشرے کی بہتری کے لیے ادا کیا جائے تو اس کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ھیں اس وقت مارکیٹ میں کھلے عام غیر معیاری بھی تیل اور ھلدی مرچ نمک بکثرت دستیاب ہیں اور ان کی قمیتوں میں بھی نمایاں فرق ہے ایک غریب آدمی کی ترجیح سستی چیز ھی ھوتی ھے اسے شاید اس کے نقائص کا علم بھی ھو تو وہ پھر بھی حالات کے ھاتھوں مجبور ھو کر سستی چیز ھی خریدے گا حالانکہ یہ موت کی خریداری ھوتی ھے جو ھم اپنی معاشی حالت کی وجہ سے خرید رے ھیں ان کی کوئی روک تھام نہیں نہ ھی معیاری اشیائے خوردونوش کو اس سطح پر لانے کی کوشش ھورھی ھے کہ یہ عام انسان کی دسترس میں ھوں تاکہ وہ با آسانی خرید سکیں اسکولوں کے قریب دوکانوں پر بچوں کے لیے انتہائی غیر معیاری پاپڑ نمکو ٹافیاں کھلے عام فروخت ھوتی اب تو غیر معیاری مشروب بھی بکثرت ملتے ہیں جنہیں استعمال کرکے بچے موذی بیماریوں کا شکار ھو رے ھیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ روکنے والا کوئی نہیں کبھی کبھار کوئی گاڑی پکڑ کر آس لدی پاپڑ سلانٹی ضبط کر کے تصویر کشی کرلی جاتی ھے مگر وھاں تک نہیں پہنچا جاتا کہ یہ کہاں بن رھی ھیں اور ان کی نقل و حمل اتنی آسانی سے کیوں ھوتی ھےاب سوچ فکر کا مقام یہ ھے کہ ھم نے مضر صحت اشیاء کی روک تھام کے لیے ادارے بنائے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کئے مگر وہ اپنی زمہ داریاں نبھانے میں ناکام کیوں ھیںناقص پانی بھی بھی اب ھماری روزمرہ کے استعمال کا حصہ بن چکا ھے سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں شامل ھو رھا جو کئی بیماریوں کا سبب بن چکا ھے آلودہ اور صاف پانی کی نشاندھی کرنے والا ایک ادارہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام ادارہ پاکستان تحقیقاتی کونسل برائے ابی وسائل کے نام آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں موجود ہے اتنی مشکل جگہ پر ھے وھاں آدمی کی رسائی ممکن نہیں گزشتہ دنوں محترم بزرگ صحافی ابرھیم گل صاحب کو اپنی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کی سوجی تو راقم الحروف کو لے کر اس ادارے کی تلاش میں نکل گے جب جگہ دریافت ھوئی تو گل صاحب کا سانس پھول چکا تھا راقم پانی کے معیار کو بھول کر ان کی حالت کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہو گیا مگر گل صاحب نے ھمت نہ جاری بلا آخر ان کے آفس میں پہنچ گے جو اجاڑ اور ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا ایک چوکیدار نے آمد کی وجہ دریافت کی اسے اپنی آمد کی وجہ بتائی دوران تحقیق معلوم ھوا کہ یہاں درجن بھر اھلکار تعینات ھیں مگر یہاں آنے کی زحمت کم ھی گوراہ کرتے ہیں ایک طویل جدوجہد کے بعد ایک اھلکار نے آکر پانی کا سمپل لیا تین ھزار روپے کی فیس کا بھی عندیہ دے کر ابرھیم گل صاحب کو صحت کی فکر سے آزاد کر دیا