خالق داد بھٹی ایک جہد مسلسل کا نام ہے

وہ پارے کی طرح ہر وقت حرکت میں رہنے والی شخصیت تھے ۔مایوسی کا لفظ ان کی کتاب میں نہیں تھا ۔جس طرح حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے فرمایا تھا کہ اس سے پہلے کہ موت میری طرف آئے کیوں نہ میں موت کا بڑھ کر استقبال کروں ۔وہ چاہتے تھے کہ چلتے چلتے ان کی زندگی کا اختتام اللہ کے رستے پر ہو۔خالق داد بھٹی
ایک روایتی کمیونٹی لیڈر نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر کمیونٹی میں تھے اور نا صرف پاکستانی کمیونٹی لوکل کمیونٹی کے قائد کے طور پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے

ابھی دو ہفتے پہلے میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور وہاں پر ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر عمران کیکا سے ملاقات ہوئی جس میں کیکا صاحب نے لوکل کمیونٹی کے درپیش مسائل کے حوالے سے ایک سکول کی مرمت کی ریکویسٹ کی اس موقع پر بھٹی صاحب نے فورا ہاں کر دی اور بولا جو بھی خرچہ ہوگا انشاءاللہ پاکستان ایسوسییشن صدرن افریقہ(PASA) کرے گی
پردیس میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جس طرح جنون تھا اس طرح ہی اپ کی رگ رگ میں وطن عزیز کی محبت بھی شامل تھی ہر فورم پر پاکستان کمیونٹی کا مقدمہ لڑتے
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ رقم کر جاتے ہیں
  اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے لیئے ایک مثال بن جاتے ہیں عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں
بھٹی صاحب ان ہی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے ‎

لیکن ان کی یادیں ان کی خدمات ان کے نقشِ پا ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے
بھٹی صاحب نے  عام انسان ہو کر بڑے بڑے لیڈروں والے کام کیئے

بھوکوں کو کھانا کھلایا
بے لباس کو کپڑے پہنائے
بے
گھروں کو چھت کی نعمت دی
بچوں کی تعلیم کے اخراجات برادشت کیے
کئ ایسی نیکیاں ہیں جن کا شمار کرنا بہت مشکل ہے
پاکستانیوں کی خدمت تو وہ عرصہ دراز سے کرتے آرہے تھے
لیکن جب سے بھٹی صاحب نے Pasa کی بنیاد رکھی سمجھو ہر پریشان حال بے روزگار بے یار و مدد گار پاکستانی کے لیے امید کی کرن بن گئے
بھٹی صاحب نے  اپنی ٹیم کے ساتھ لوگوں کی مالی جانی اور ٹائم دے کر ہر ایک کی خدمت کی 
کسی ایک کو  بھی مایوس نہیں کیا 
کئ ایسے گھرانے جن کے کفیل ساوتھ افریقہ میں کسی بھی وجہ سے مار دیئے قتل ہوگئے ان کی دکانیں جلا دی گئیں بھٹی صاحب اور ان کی ٹیم کفیل بن گئے
ان کے گھریلو اخراجات ہوں یا بچوں کے تعلیمی اخرجات ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا
انہیں جینے کا حوصلہ دیا
ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی نوید بھر دی
مجھے یاد ہے آج سے دو سال پہلے جب سوازی لینڈ میں ہنگامے پھوٹ پڑے اس وقت ہمیں حکم دیا کہ بارڈر پہ پہنچو اور خود ہم سے پہلے وہاں پر موجود تھے اور کہاجو لوگ بے یار و مددگار ہیں ان کی کامیڈیشن ان کے کھانے کا انتظام کیا جائے اور اس وقت ان کی بات ایک کمیونٹی لیڈر سے ہو رہی تھی اور وہ ان کو مشورہ دے رہے تھے کہ یہ ٹائم ٹھیک نہیں ہے اس سے اپ کی جانوں کو خطرہ ہے
اج بھی مجھے وہ تاریخی الفاظ یاد ہیں تو اپ نے فرمایا اپنی جان اور مال ضائع کر کے ہی دوسروں کی مدد کی جا سکتی ہے
الحمدللہ تاریخ گواہ ہے ہم نے بھٹی صاحب کی قیادت میں بہت ساری فیملیوں کو ریکور بھی کیا جس کا بعد میں اس وقت کے سیکنڈ ایمبیسڈر جناب عدنان جاوید صاحب نے بھٹی صاحب کے اس عمل کو سراہا اور خراج تحسین پیش کیا

میری دعا ہے اللہ تعالٰی ماضی کی طرح ہمیں بھٹی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی لگیسی پر عمل پیرا رکھے
مرحوم  کی صغیرہ و کبیرہ غلطیاں معاف فرمائے
مرحوم کی نیکیوں کو اپنے دربار میں بڑھا چڑھا کر رکھے
مرحوم کو جنت کے باغوں کی سیر کرائے 
مرحوم کی قبر کو جنت کی باغوں کی طرح ٹھنڈی ہوا دار و روشن بنائے
مرحوم کی قبر کی منزل کو آسان بنائے
ان کی والدین بیوی بچوں بہن بھائیوں کو و دوست احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
میاں محمد زکریا

Comments (0)
Add Comment