ایک انقلابی رہنما سردار فہیم اکرم شہید

تحریر عابد چغتائی متحدہ عرب امارات

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ موت ایک ختمی حقیقت ہے، مگر بعض لوگ ایسی حقیقتیں چھوڑ جاتے ہیں کہ موت بھی ان کے عظیم اثرات کو مٹا نہیں سکتی۔ آج ہم ایک ایسے انقلابی لیڈر کی موت پر سوگ منا رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو اصولوں اور اقدار کے لیے وقف کیا۔ ان کی موت نے ہمیں ایک سنگین یاد دہانی دی ہے کہ تبدیلی کی راہ میں مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر ان کی قربانیوں کی روشنی میں ہمیں کبھی بھی اپنی راہ سے منحرف نہیں ہونا چاہیے۔انقلابی لیڈر کی زندگی ایک روشن مثال ہے کہ کیسے ایک فرد اپنے عزم و حوصلے کے ساتھ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ان کی باتوں میں سچائی اور ان کی عملوں میں اخلاص تھا۔ انہوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی، اور اپنی جدوجہد سے نوجوانوں کے دلوں میں امید کی ایک نئی کرن روشن کی۔جب ہم اُس انقلابی کی موت کی خبر سنتے ہیں، تو یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ مگر ان کی قربانیاں، اور ان کی سوچ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ ان کی زندگی کی طرح، ان کی موت بھی ہمارے لئے ایک پیغام ہے کہ ان کے خوابوں کی تکمیل کی راہ میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔انقلاب صرف ایک تحریک نہیں، بلکہ یہ ایک سوچ، ایک نظریہ، اور ایک عزم کا نام ہے۔ ہمارے انقلابی لیڈر نے ہمیں دکھایا کہ کس طرح ایک مضبوط ایمان اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہم ایک نئے اور بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ ان کی موت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ان کے مشن کو جاری رکھنا ہمارے لئے ایک فرض ہے۔میں آج جس انقلابی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ہیں ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم کے سابق مرکزی سکرٹیری جنرل کامریڈ فہیم اکرم شہید۔ سردار فہیم اکرم شہید نے گاؤں کوٹیرہ مست خان باغ میں جنم لیا۔۔ انھوں نے جس گھرانہ میں جنم لیا وہ ایک حریت گھرانہ تھا۔ ان کے والد صاحب اکرم خان ایک با کردار با اصول شخص تھے جن کا شمار مقبول بٹ شہید کے ساتھیوں میں کیا جاتا۔ اکرم صاحب نے محاذ راے شماری سے اپنی جہدوجہد کا آغاز کیاسردار فہیم اکرم شہید اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد کے نقشے قدم پر چلتے ہوے جس راستے کا انتخاب کیا وہ مشکل ترین راستہ تھا سردار فہیم اکر م انقلابیوں کے راستے پر چلتے ہوئے 26ستمبر 1991ان نام نہاد سامراجی قوتوں کے ہاتھوں جام شہاد ت نوش کیا 26ستمبر 1991باغ کی تاریخ بلکہ خطہ کشمیر کی تاریخ میں وہ سیاہ ترین دن ہے جب بزدلوں کے ہاتھوں ایک عظیم انقلابی کا خون ہوافہیم اکرم شہید نے اپنی ساری زندگی مادروطن ریاست جموں کشمیر کی آزادی خود مختاری غیر طبقاتی سماج اور عالمی سوشلسٹ انقلا ب کے ساتھ ساتھ قوم کے عظیم مفاد میں وقف کی۔ سردار فہیم اکرم شہید نے اپنی جدوجہد اور قربانی سے تاریخ کشمیر کے صفحات پر ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ ان کی شہادت ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ آزادی، انصاف، اور برابری کے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے بے پناہ قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔سردار فہیم اکرم شہید کی زندگی ایک مثال ہے کہ کیسے ایک فرد اپنے عزم و ہمت سے قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ان کی قیادت میں قوم نے ظلم و استبداد کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد کی۔ ان کے خواب ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے تھے جہاں ہر فرد کو برابری، انصاف، اور عزت ملے۔ سردار فہیم اکرم شہید نے نہ صرف اپنی زندگی کو ان اصولوں کے لئے وقف کیا بلکہ اپنی شہادت سے ان اصولوں کی سچائی کو بھی ثابت کیا۔
جب ہم ان کی موت کا ذکر کرتے ہیں یا جب ان کی برسی مناتے ہیں، تو دل کی گہرائیوں سے ان کی یاد آتی ہے۔ ان کی جدوجہد ان کی قربانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ فہیم اکرم شہید کی شہادت نے ہمیں یہ سبق دیا کہ سچے انقلابی کبھی ہار نہیں مانتے، ان کی روح ہمیشہ ہماری اور ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
سردار فہیم اکرم شہید کی موت ایک کٹھن لمحہ ہے، مگر ان کی زندگی کا پیغام ہمیں طاقت دیتا ہے کہ ہم اپنے عزم کو مضبوط رکھیں۔ ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں اپنے عزم کو دوگنا کرنا ہوگا، اور ان کی راہ پر چل کر ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کی طرف گامزن رہنا ہوگا۔ انقلابی نوجوانو: آج ہمیں عزم و ہمت کی ضرورت ہے تاکہ ہم سردار فہیم اکرم شہید بابائے انقلاب گل نوا زبٹ شہید۔شہید کشمیر مقبول بٹ شہید اور شہید چکواٹھی۔ شہید گلگت کی قربانیوں کوو ضائع نہ ہونے دیں۔ ہمیں ان کے نظریات کو اپنے عمل میں ڈھالنا ہوگا اور ان کے خوابوں کی تکمیل کی راہ میں اپنی کوششیں دوگنا کرنا ہوگی۔فہیم اکرم شہید کی موت نے ہمیں غمگین تو کیا، مگر ان کی زندگی نے ہمیں ایک روشن راستہ دکھایا ہے جس پر چل کر ہم ان کے مشن کی تکمیل کر سکتے ہیں۔سردار فہیم اکرم شہید کی روح کو سکون ملے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کی ہم سب کو طاقت ملے۔ہماری دعا ہے کہ ان کی روح کو سکون ملے، اور ہم ان کے نظریات اور خوابوں کو زندہ رکھ سکیں تاکہ ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں جہاں انصاف، آزادی، اور برابری کی جڑیں مضبوط ہوں۔۔۔۔۔

Comments (0)
Add Comment