باغ (مبلغ نیوز) انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر نے ملی بھگت سے با غ کے گائوں چھتر نمبر دو سے تعلق رکھنے والی کرن طیب کا نکا ح پر نکا ح کروا دیا، ذرائع کے مطابق لڑکی کے ہاتھ اور منہ باندھ کر گاڑی میں رخصت کیا گیا، بیرون ملک مقیم شوہر نے انصاف کیلئے وزیراعظم آزاد کشمیر اور آئی جی پولیس کو خط لکھا لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، ڈھولبن سے تعلق رکھنے والے محمد طیب کے
بوڑھےوالدین درخواستیں لیکرڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے آفس کے دفاتر کے چکر لگاتے رہے ، کسی نے نوٹس لیا نہ شادی رکوائی ، ڈپٹی کمشنر نے فون اٹھانا ہی چھوڑ دیا،دن بارہ بجے لڑکی کرن طیب کا نکا ح کسی اور شخص سے کروا دیاگیا،ڈھولبن کے محمد طیب نے چھتر نمبر دو کی کرن کے ساتھ دوہزار پندرہ میں کورٹ میرج کی تھی،لڑکی کے والدین نے بعد میں محمد طیب پر اغواہ برائے تاوان کا مقدمہ درج کروا دیا تھا، کیس آج فیملی کورٹ میں دائر ہونا تھا ، لیکن ہڑتال کے باعث دائر نہ ہوسکا، آج لڑکی کے گھر والوں نے اس کا نکاح کسی زبردستی کسی اور کیساتھ کروا لیا، محمدطیب کا ایک ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر وائر ل ہے جس میں اس نے اعلی حکام سے نوٹس لینےاور شادی رکوانے کا مطالبہ کیا تھا ، طیب نے پیغام میں بتایا کہ اس نے اگست دو ہزار پندرہ میں چھتر نمبر دو کی کرن نامی لڑکی سے کورٹ میرج کی اور کچھ ماہ بعد واپس سعودی عرب چلا گیا، محمد طیب کے مطابق لڑکی کو دھوکے سے اپنے گھر بلایا اور اپنے پاس رکھ لیا، دو سال بعد جب یہ اپنی بیوی کو لینے کیلئے گیا تو سسرال والوں نے اس پر اغواہ برائے تاوان کا مقدمہ درج کرلیا تھا، اور پولیس کے ساتھ مل کر اس کے گھر والوں کو حوالات میں بند کروا دیا، جہاں پر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ، مجبور ہوکر محمد طیب نے تھانہ باغ میں گرفتاری دے دی، پولیس نے تین دن کا ریمانڈ لیکر اسے ستائس دن جیل میں رکھا اور
بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، طیب کا کہنا ہے کہ اس دوران انجکشن لگا کر بے ہوش کیا گیا اور طلاق کے کاغذات پر انگوٹھا لگوایا گیا، اس کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اسے تھانے میں آکر پولیس کے ساتھ مل کر اسے تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور اس دوران پولیس نے اسے دھمکی دی کہ وہ فورا علاقہ چھوڑ دے ورنہ اس کی عزتوں کو بازار میں لے آئیں گے، طیب بیرون ملک چلا گیا اور اس نے وہاں سے بیٹھ کر اپنا کیس لڑا، سیشن کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اس کیس
کا فیصلہ فیملی کورٹ کرے گی ، ابھی اس نے فیملی کورٹ کیلئے درخواست تیار کی ہے، جو کہ آج جمع ہونی ہے، اس دوران ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے لڑکی کے والدین نے نکاح پر نکاح کررہے ہیں ، طیب کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں اور اسے دوسری شادی کیلئے راضی کررہے ہیں ، آج انہوں نے کرن کا نکاح کسی بوڑھے شخص سے طے کر لیا ہے، نکاح آج دن بارہ بجے چھتر نمبر دو میں ہوگا، اس نے تھانے
میں متعدد درخواستیں بھیجیں، وزیراعظم آزاد کشمیر اور آئی جی پولیس کو بھی خطوط لکھے لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آرہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی اور قومی میڈیا سے تعلق رکھنے والے متعدد صحافیوں نے معاملہ ڈپٹی کمشنر باغ کے نوٹس میں لایا لیکن انہوں لڑکی کے والدین کی حمایت میں کوئی اقدام نہیں اٹھا یا، متاثرہ لڑکے محمد طیب کے بوڑھے والدین آج نکاح رکوانے کی درخواست لیکر ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچے لیکن انہوں نے شادی رکوانے کیلئے
کوئی اقدام اٹھا نے کے بجائے درخواست مارک کرکے ایس پی کو بھجوادی ، جس کے بعد لڑکے کے والد جب ایس پی کے آفس پہنچے تو وہ سیٹ پر موجود نہیں تھے ، ایس پی کے اسٹاف نے ان سے تعاون کرنے سے انکار کردیا، درخواست ابھی بھی ایس پی کے ٹیبل پر پڑی ہوئی ہے، جبکہ دوسری طرف معاملہ ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں آنے کے باوجود لڑکی کا نکاح کرکے اسے رخصت کردیا گیا، لڑکے محمد طیب کے والدین نے چیف سیکرٹری اور وزیراعظم آزاد کشمیر سے فوری نوٹس لیکر انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔