آزادکشمیر کے مسائل کی اصل ذمہ دار بیوروکریسی ہے‘ظفر اقبال ملک

مظفرآباد(خصوصی خبرنگار)وزیر حکومت ظفر اقبال ملک نے کہا ہے کہ بعض دوست مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے ریاست کے اندر بدامنی کا ماحول پیدا کرکے عوام کو وزراء اور ممبران اسمبلی کے خلاف اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔آزادکشمیر کے مسائل کی اصل ذمہ دار بیوروکریسی ہے۔ماضی کے حکمرانوں نے بھی بنیادی اور حقیقی مسائل نظر انداز کیے،اگر دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ ریاست ہر لحاظ سے خوشحال اور باوسائل ہوتی۔1لاکھ 16ہزار ملازمین کی فوج پالنے کے لیے حکومت آزادکشمیر پر سخت معاشی دباؤ ہے۔وزیراعظم چوہدری انورالحق نے پہلی بار افسر شاہی کو بلاکر ان پر واضح کیا ہے کہ کام کرنا پڑے گا،تمام سرکاری اداروں میں کام کا رجحان موجود نہیں۔مرکزی ایوان صحافت مظفرآباد میں میٹ دی پریس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر حکومت کا کہنا تھا کہ ان کا حلقہ انتخاب راج محل آزادکشمیر کاسب سے پسماندہ اور نظر انداز حلقہ ہے۔حلقہ کے عوام نے انہیں جس اعتماد سے نوازا اس کا تقاضا ہے کہ بنیادی عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر آواز بلند کروں۔راج محل کے عوام کے مینڈیٹ کے تحت ہر محاذ پر ان کے حقوق کے لیے چوکیدار کا فرض نبھا رہا ہوں۔53ممبران اسمبلی میں سب سے جونیئر ہوں،مختصر عرصہ کے دوران اقتدار کے ایوانوں میں بہت کچھ دیکھا،ماضی میں وزراء اور ممبران اسمبلی کو بادشاہ تصور کیا جاتاتھا ہم نے یہ تاثر ختم کرکے ممبران اسمبلی اور وزراء کو عوام کا خادم ثابت کیاہے۔ممبران اسمبلی اور وزراء کوئی الگ مخلوق نہیں یہ عوام میں سے ہی ہیں اور عوام نے انہیں منتخب کیا ہوا ہے۔سیاستدان پانچ سال کے لیے منتخب ہوکر اسمبلی کے پلیٹ فارم سے عوام کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں جبکہ بیوروکریسی کم از کم 30سال کے لیے ملازم ہوتی ہے۔مسائل کی اصل ذمہ داربیوروکریسی اور افسر شاہی نظام ہے۔اگر سیکرٹری صاحبان اور سربراہان محکمہ جات نیک نیتی اور دیانتداری سے فرائض سرانجام دیں تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔آج آزادکشمیر کے لوگ ممبران اسمبلی اور وزراء سے نفرت کرنے لگے ہیں جس کی اصل ذمہ داری بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے۔ملک ظفر اقبال کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے بحیثیت وزیر ہائیر ایجوکیشن 180کالجز کے دورے کر کے سرکاری کالجز میں بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی۔سرکاری کالجز میں تعلیمی سہولیات فراہم کر کے معیار تعلیم بہتر کرنے کے لیے ان کی کاوشیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے ریٹائرڈ افسران کے ساتھ مشاورت کی اور ان کی راہنمائی میں تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔وزیر حکومت کا کہنا تھا کہ نئی مردم شماری کے مطابق آزادکشمیر کی آبادی 45لاکھ سے کم ہوکر 22لاکھ تک آگئی ہے زیادہ تر لوگ بیرون ملک یا پاکستان میں مقیم ہیں۔انہوں نے تعلیمی اداروں میں حکومتی اخراجات اور معیار تعلیم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں 54طلبہ پر ایک ٹیچر ہے جبکہ پاکستان میں 34طلباء پر ایک استاد مقرر ہے،آزادکشمیر میں 14طلباء پر ایک استاد ہے اس کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں میں سٹاف کی کمی دیکھی گئی ہے۔ناقص منصوبہ بندی اور افسر شاہی کی نااہلی کے باعث خطہ کے ہر ادارے میں غیر متوازن صورتحال ہے۔مہنگی تعلیم کے تمام اخراجات آزادکشمیر حکومت کو برداشت کرنا پڑتے ہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں پرائمری کے ایک طالبعلم پر حکومت ماہانہ 6ہزار روپے جبکہ ہائی سکول کے طالبعلم پر 12ہزار روپے اور کالج کے طالبعلم پر 22ہزار روپے خرچ کرتی ہے یہ تمام اخراجات نارمل میزانہ سے ادا کیے جاتے ہیں جو ٹیکس پے کا پیسہ ہے۔اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارات کی قیمت اور دیگرسہولیات بھی شامل کی جائیں تو اخراجات 50ہزار روپے ماہانہ بن جاتے ہیں،اتنے اخراجات کے باوجود کوالٹی آف ایجوکیشن مایوس کن یہ۔سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے بچے پرائیویٹ اداروں میں پڑھتے ہیں،جن پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہ محض 8سے 10ہزار روپے ہے۔ملک ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمران اگر چاہتے تو یہ مسائل حل کرسکتے تھے مگر اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی،دھڑا دھڑ تعلیمی ادارے کھولے گئے ضرورت کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔وزیراعظم انوارالحق نے اداروں کی کارکردگی اور اخراجات میں توازن پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔اداروں میں بیٹھے افسران کو بلا کرا ان پر واضح کیا گیا ہے کہ کام کرنا پڑے گا۔آٹے کی سبسڈی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر حکومت کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر حکومت 1ارب روپے ماہانہ آٹے پر سبسڈی دے رہی ہے۔جبکہ گندم کی خرید اور ٹرانسپورٹیشن پر 7ارب روپے الگ سے سبسڈی ہے جبکہ مجموعی طورپر19ارب روپے سالانہ سبسڈی دی جارہی ہے۔آزادکشمیر میں آج ب…