دومیل پل سے چھلانگ لگانے والی لڑکی کی موت کا معمہ حل نہ ہو سکا

مظفرآباد(نمائندہ خصوصی)خودکشی یا قتل دومیل پل سے چھلانگ لگانے والی لڑکی کی موت کا ممبہ حل نہ ہو سکا۔ورثاء کا گھریلو تشدد کر کے خودکشی پر مجبور کرنے والے شوہر،ساس اور لڑکے کے تایا اور تائی کو شامل تفتیش کرتے ہوئے واقع کی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ۔میری بہن کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے پولیس کو گمراہ کرنے کیلئے اس پر پاگل ہونے کا بھونڈا الزام لگا رہے ہیں۔میری بہن پڑی لکھی اور حواص باختہ تھی۔ورثاء کا دعویٰ کرنے والوں کا میری بہن سے کوئی تعلق نہیں۔ہم اس کے حقیقی وارث ہیں۔پولیس کو گمراہ کرنے کیلئے میرے بہنوئی کے رشتہ داروں نے اسے پاگل ظاہر کر کے شوائد مٹانے کی کوشش کی ہے۔بچی کا موبائل اس وقت تک اس کے پاس موجود تھا جب تک اس نے دریاء میں چھلانگ نہیں لگائی۔پل سے چھلانگ لگانے سے پہلے میری بہن نے اپنا بیگ سے بھرا سامان موبائل اور جیولری پل کے اوپر ہی چھوڑی اور اپنی معصوم بچی کے ہمراہ دریاء میں چھلانگ لگا دی۔جب اطلاع ملی تو دیگر سامان تو مل گیا لیکن موبائل موقع یا تھانے سے غائب کر دیا گیا تھا۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز دومیل پل سے چھلانگ لگانے والی حاملہ لڑکی کے بھائی امجد صغیر نے اپنی والدہ اور دیگر ورثاء کے ہمراہ مرکزی ایوان صحافت میں پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری بہن کی عمر تقریباً سترہ سال تھی جب2019میں ہم نے اس کی شادی عاطف محمود ساکنہ بانڈی کوکاں سے کروائی۔ شادی کے بعد ان کے گھر بعد گھر میں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور اس کے بعد گھریلو حالات میری بہن پر اس قدر تنگ کر دیئے گئے کہ اس کا جینا بھی دوبھر کر دیا گیا۔میری بہن جب واپس اپنے گھر آتی تو ہم اسے یہی کہتے کہ ہم نے تمہاری شادی کر دی ہے اب تمہارا جینا مرنا تمہارے شوہر کے ساتھ ہے۔ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب حالات نارمل ہو جائیں گے اور تم بہترین زندگی گزار سکو گی۔اسی دوران میری بہن کے گھر ایک اور بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کے بعد شوہر نے نہ صرف اسے خرچہ دینا بند کر دیا بلکہ اس کے ساتھ اپنا رویہ بھی تلخ کرنا شروع کر دیا۔لڑکی کی والدہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن قبل بھائی نے اپنے بہن کے نمبر پر موبائل پیکج کروایا جس پر اس نے مجھے کال کر کے بتایا کہ میرے شوہر کا کسی اور لڑکی کے ساتھ بات چیت ہے اس نے مجھے یہ کہا کہ ماں اب حد ہو گئی ہے اس کے بعد اب مجھے آگے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔لڑکی کے بھائی نے بتایا کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی دوسری لڑکی کی تصویر دکھا کر خود یہ اعتراف کرے کہ میرا اس کے ساتھ بات چیت ہے تو پھر اس لڑکی پر کیا گزری ہو گی۔خودکشی ظاہر کرنے والے لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں کہ آخر اس نے یہ انتہائی قدم کس لیے اٹھایا۔میں نے تھانہ میں درخواست دے دی لیکن تاحال مجھے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی کے ایف آئی آر درج ہوئی بھی ہے کہ نہیں۔میری ملاقات ایس ایس پی مظفرآباد یٰسین بیگ سے ہوئی انہوں نے یقین دہانی تو کروائی ہے کہ واقع کی تحقیقات کریں گے لیکن چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک ایف آئی آر نہیں ہوئی اور نہ ہی جن لوگوں پر ہمیں شک ہے ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔اگر موبائل مل گیا تو بہت ساری چیزیں واضح ہو جائیں گی۔یقینا اس موبائل میں کچھ ایسی باتیں تھیں جس کے باعث موبائل کو غائب کیا گیا۔لڑکی کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے لڑکی کا ذہنی توازن خراب ہونے کی میڈیا کو غلط نشاندہی کر رہے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کا ذہنی توازن خراب ہو وہ موبائل کے اوپر اپنا آخری اسٹیٹس ایڈیٹنگ کر کے اپ ڈیٹ کرتی ہے اور اس کے بعد دریاء میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔بہت سارے محرکات ایسے ہیں جن کو سامنے لایا جانا بہت ضروری ہے۔میری آئی جی آزاد کشمیر ڈی آئی جی آزاد کشمیر اور ایس ایس پی مظفرآباد سے اپیل ہے کہ میری بہن کی خودکشی کی وجہ بننے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لا کر ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔