پندرویں ترمیم کی بازگشت افواہیں یا حقائق

تحریر: عارف عرفی

پاکستان میں ہونے والی سیاسی صورت حال پر میں صرف اس وقت ہی اظہار رائے کرنا ضروری سمجھتا ہوں جب وہ کسی طرح سے بھی مادر وطن پر اثر انداز ہو رہی ہو۔ آزاد کشمیر میں پندرہویں ترمیم کی بازگشت میں یہاں کے وسائل پر آوٹ سورسنگ کے نام پر ٹورازم اتھارٹی بنا کر اختیار کی قانون سازی کے پس منظر میں قمر زمان کائرہ کا کل ہونے والا دورہ اور اس سے قبل چیف سیکرٹری چاچڑ صاحب کی صحافیوں سے کھلی ڈھلی گپ شپ مستقبل کی دھندلی تصویر کو واضع کرنے کی جانب بہت سے اشارے دے رہی ہے ۔ پاکستان میں جس دن عزیر بلوچ کی ضمانت ہوئی تو پیپلز پارٹی کی پس پردہ افہام و تفہیم کی افوہیں سرگرم ہو گئیں اس کے فورا بعد پی پی نے مولانا کا لانگ مارچ ٹائیں ٹائین فش کرکے شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی پے در پے واقعات کا تسلسل گنوائے بغیر نواز شریف کے مزاحمتی بیانیہ کی مقبولیت کو شہباز شریف حکومت کی ناکامیوں سے رد عمل کا تڑکا لگا کر پنجاب کے مزاحمتی سپورٹ بنک کو عمران خان کا ووٹ بنک بنوانا پھر پنجاب کی حالیہ اچھل کود سے ن لیگ کے سپورٹ بنک کو بنک کرپٹ کرنے کی کوشش اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ پاکستان میں مستقبل میں پی ٹی آئی اور پی پی پی شاید مل کر حکومت بنائیں۔
چیف سیکرٹری چاچڑ صاحب نے آزاد کشمیر میں ذات برادری کا تذکرہ کرکے پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ بطور گجر قائد حزب اختلاف بطور گجر ربط کی جانب غیر شعوری اشارہ دیکر بات پندرہویں ترمیم پر کائرہ صاحب سے سوال کرنے کی مشورہ دے کر جان چھڑا لی ۔ صرف اتنا کہا کہ کچھ ٹیکنکل خرابیاں تیرہویں ترمیم میں ہو گئی ہیں جن کو درست کرنا سیاسی قیادت کی صوابدید ہے ،پاکستان کی اٹھارہوین ترمیم کی وجہ سے جس طرح کے اختیارات صوبوں کو ملے ہیں ایسے ہی اختیارات آزاد کشمیر کو بھی ملیں گے دوسری طرف کائرہ صاحب قائد حزب اختلاف لطیف اکبر صاحب کو کس طرح مناتے ہیں یہ اب ان تک ہے نون لیگ نے شاہ صاحب غلام قادر کی صورت بھائی لوگاں کا مطالبہ تسلیم کرکے فاروق حیدر کو اپنے تئیں آئینی ترمیم معاملے پر الگ تھلگ کر دیا ہے شاہ صاحب راضی، کائرہ نے چودہری صاحب کو حکم حمایت کر دیا ، پی ٹی آئی تو پہلے سے تیارہ بیٹھی ہے لہذا پندرہویں ترمیم پاس ہونا اب دور کی بات نہیں۔ لیکن یادرہےدونوں جڑواں ٹرمپ صاحب کی ثالثی کی بعد مسلہ کشمیر کشمیریوں سمیت ختم کرنے پر متفق ہو چکے ہیں ایک نے عملا ریاست ختم کردی ہے دوسرا آخری مراحل طے کررہا ہے ۔ آزاد حکومت کے حکمرانوں کی حرکتوں سے نالاں لوگ بلکہ بڑے بڑے صحافی تک آزادحکومت ختم کرنے ، ترانہ اور جھنڈا ختم کرنے کے حق میں سوشل میڈیا پر کمپیئن چلاتے نظر آرہے ہیں ، کو بلا وجہ نہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں کون کس طرح کشمیریون پر اپنے “ویج سلیوز” کو ہمارا حکمران مقرر کرتا ہے تو پھر حق تو یہ ہیکہ ان حکمرانوں کے سارے کرتوت ان کے ماسٹرز کے کھاتے میں ڈالنا ہی قرین انصاف ہوگا ۔شاید صرف کے ایچ خورشید اور فاروق حیدر نے احکام بجالانے میں مزاحمت کی اور نتیجتا پھر دوبارہ حکمرانی کا دروازہ ان پر بند ہوگیا ہے ۔
یاد رہے پاکستان کا یہاں پر کنٹرول اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں ہے ناکہ عارضی ہے اور آزاد حکومت کو اقوام متحدہ میں بطور لوکل اتھارٹی مانا گیا ہے اب اس سے یہ سٹیٹس واپس لے کر پاکستانی قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ٹرمپ مودی عمران سہہ فردی فیصلے کو حتمی صورت دی جا سکے ۔
کشمیریوں کو یہ یاد رکھنا چا ہیئے جیسی تیسی، سازشی منصوبے سے ہی سہی ، ریاست پر حملہ کرکے کمزور سی ہی سہی ریاست کی آزاد حکومت ، ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کا علامتی وجود کل کسی بھی وقت ریاست کی بحالی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے جو اس سہہ فردی معاہدے کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے لہذا اس حکومت کے وجود کو ختم کرنا ضروری سمجھا گیا ہے ۔ اگر چہ یہاں پر ایسی مخلوق بستی ہے جو اسلام آباد کی ہر اچھی بری کو خاموشی سے قبول کر لینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے اس باوجود یہاں کا موجوہ سٹیٹس ختم کرنا اس لئے ضروری ہےکہ یہ قائم رہا تو سلامتی کونسل میں گڑھا مردہ کسی بھی وقت دوبارہ زندہ ہوجائے گا ۔ پاکستان جس بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اس میں مزید بحرانوں کو دعوت دینا کسی صورت مناسب نہیں ۔ بنگلا دیش بنانے کا بدلہ لیتے لیتے خدا نخواستہ مزید کسی ایڈونچر کو دعوت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے ۔ریاست پاکستان کی عمل داری میں واحد آزاد حکومت کے زیر نگین علاقہ ہے جہاں کسی پاکستانی پر کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا پورے کے شہر بھائی لوگاں کے زیر استعمال ہیں ہزار بد اخلاقیوں اور ند تہذیبیوں کے باوجود کشمیری قوم اپنے تئیں انہیں رحمت اور نجات کا فرشتہ سمجھتی ہے پاکستانیوں کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار رہتی ہے بلکہ کنڈل شاہی نیلم میں پاکستانیوں کو بچانے کے لئے کشمیریوں نے دریا کی خوفناک لہروں کی نذر ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی ، یہاں کے کشمیریوں کا اقتصادی جذباتی معاشی اور معاشرتی رشتہ پاکستان سے جڑچکا ہے اسے کسی آزمائش میں نہ ڈالا جائے تو یہ یقینا آپ کے لئے بھی اور کشمیریوں کے بھی مفاد میں ہوگا یہ الگ بات ہے کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار آپ کو اسی طرح خوش کرنے کی کوشش میں اپنے بھائیوں کے بارے اول فول بک کر آپ کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں یاد رکھیئے جو اپنی قوم کی نہیں ہو سکے وہ آپ کی بھی نہیں ہوسکتے، اپنے ہم جنسوں پر بھونک کر دوسرے کے آگے دم ہلانے والے آپ سے افضل نہیں ہو سکتے۔ اپنے برابر کے لوگوں سے مل بیٹھیں کھرا سچ سنیئے اور حقیقت پر مبنی فیصلے کریں باقی آپ کی مرضی ۔