فکری تخریب کاری

تحریر :سردار شعیب حیدری
دو قومی نظرئیے کے مخالف ، ہندو اور مسلمانان بر صغیر کو ایک قوم سمجھنے والے پاکستان کی تخلیق کے مخالف جنکی بنیاد ہی ہندوستان ہے جنکا قائد نہرو ، گاندھی اور آزاد ہے جو قائد اعظم کو سچا مسلمان تو کجا انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے ، جنکی اج ستر سال کے بعد کی تحریروں میں بھی قائد کے حوالے کم اور اغیار کے زیادہ ہوتے ہیں وہ کیا جانیں کہ جزو ایمان کا مطلب کیا ہے ، سطحی سوچ کے مالک خود غرضی اور نرگسیت کا شکار دانشور سیاسی مخالفت ، عداوت و بغض میں ریاست پاکستان کے ہی مخالف ٹہرے ،،،قوم پرستی سے اختلاف صرف رائے کا تھا لیکن بڑی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ کہیں نہ کہیں جا کر انکے نظریات پاکستان مخالفوں سے مل جاتے ہیں، پھر جب اس میں لبرل فاشسٹ شامل ہوتے ہیں تو پھر اسلام ‎دشمنی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے،،‎موجودہ حالات میں پاکستان ہماری امیدوں کا محور ہے،، اس کی حکومتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ انہوں نے شاید ہمیں مایوس بھی کیا ہو لیکن ریاست پاکستان کی عوام نے اور اسکی وردی نے ہمیشہ ہر لمحہ ہمارا ساتھ نبھایا اور ہماری پشت پر کھڑی رہی،،،،، کشمیر بنیگا پاکستان کا نعرے نے ہماری سمت کا تعین کر دیا ، یہ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے،،، ہماری شناخت کشمیری سے زیادہ پاکستانی کی ہے یہ اکثریت کا خیال ہے،، قوم پرستوں کا حصہ کتنا ہے چیزوں کو اسکے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،، بھارتی تسلط سے ازادی کے بعد مل بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے لیکن افواج پاکستان کو راولاکوٹ میں کھڑے ہو کر گالی دینا کہاں کا انصاف ہے، کونسی دہشت گردی ازاد کشمیر میں ہے اور اگر نہیں ہے تو اسکا کیا جوازہے‎ان قوم پرستوں کے کیا مراسم ہیں حربیار مری اور برامداغ بگٹی سے ،، ‎انکے کونسے حقوق سلب ہوتے ہیں بلوچستان میں ، انکی کیا دلچسپی ہے فاٹا میں؟ ‎کیا فاٹا اور بلوچستان کو براہ راست کوئی تعلق ہے تحریک ازادی سے، اگر نہیں تو پھر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ بادی النظر میں یہ ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں، بھارت کے ریاستی جبر اور ظلم کیخلاف بات کرتے انکی زبانیں شل ہو جاتی ہیں،، ریاستی تشخص اور قومیت کا جتنا خیال سواد اعظم اور اسکی قیادت نے رکھا کسی اور نے نہیں رکھا ، اس ریاستی تشخص اور قوم کے لیے جیلیں کاٹیں لیکن ریاست پاکستان جو تحریک ازادی کشمیر کی پشت بان ہے اسکے خلاف کوئی بات نہ کی ہے اور نہ یہ برداشت کی جا سکتی ہے،،، وہ کون سا ایسا ظلم ہے جو کشمیریوں نے حق کی خاطر برداشت نہیں کیا ۔ وہ کون سا ایسا قہر ہے جو ان پر پاکستان سے الحاق کے جرم میں ڈھایا نہ گیا ہو۔ وہ کون سی ایسی وحشت ہے جس کا سامنا کشمیریوں نے اسلام کے لیے نہ کیا ہو۔ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے کشمیریوں کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ’’ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول ﷺ اللہ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کشمیریوں کا یہ نعرہ آج سے نہیں ہے ۔ یہ تب بھی تھا جب 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کا دورہ کیاتھا۔ قرارداد لاہور کو پاس ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ، اسلام کے تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے،دو قومی نظرئیے کے مخالف ، ہندو اور مسلمانان بر صغیر کو ایک قوم سمجھنے والے پاکستان کی تخلیق کے مخالف جنکی بنیاد ہی ہندوستان ہے جنکا قائد نہرو ، گاندھی اور آزاد ہے جو قائد اعظم کو سچا مسلمان تو کجا انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے ، جنکی اج ستر سال کے بعد کی تحریروں میں بھی قائد کے حوالے کم اور اغیار کے زیادہ ہوتے ہیں وہ کیا جانیں کہ جزو ایمان کا مطلب کیا ہے ، سطحی سوچ کے مالک خود غرضی اور نرگسیت کا شکار دانشور سیاسی مخالفت ، عداوت و بغض میں ریاست پاکستان کے ہی مخالف ٹہرے ،،،قوم پرستی سے اختلاف صرف رائے کا تھا لیکن بڑی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ کہیں نہ کہیں جا کر انکے نظریات پاکستان مخالفوں سے مل جاتے ہیں، پھر جب اس میں لبرل فاشسٹ شامل ہوتے ہیں تو پھر اسلام ‎دشمنی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے،،‎موجودہ حالات میں پاکستان ہماری امیدوں کا محور ہے،، اس کی حکومتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ انہوں نے شاید ہمیں مایوس بھی کیا ہو لیکن ریاست پاکستان کی عوام نے اور اسکی وردی نے ہمیشہ ہر لمحہ ہمارا ساتھ نبھایا اور ہماری پشت پر کھڑی رہی،،،،، کشمیر بنیگا پاکستان کا نعرے نے ہماری سمت کا تعین کر دیا ، یہ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے،،، ہماری شناخت کشمیری سے زیادہ پاکستانی کی ہے یہ اکثریت کا خیال ہے،، قوم پرستوں کا حصہ کتنا ہے چیزوں کو اسکے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،، بھارتی تسلط سے ازادی کے بعد مل بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے لیکن افواج پاکستان کو راولاکوٹ میں کھڑے ہو کر گالی دینا کہاں کا انصاف ہے، کونسی دہشت گردی ازاد کشمیر میں ہے اور اگر نہیں ہے تو اسکا کیا جوازہے‎ان قوم پرستوں کے کیا مراسم ہیں حربیار مری اور برامداغ بگٹی سے ،، ‎انکے کونسے حقوق سلب ہوتے ہیں بلوچستان میں ، انکی کیا دلچسپی ہے فاٹا میں؟ ‎کیا فاٹا اور بلوچستان کو براہ راست کوئی تعلق ہے تحریک ازادی سے، اگر نہیں تو پھر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ بادی النظر میں یہ ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں، بھارت کے ریاستی جبر اور ظلم کیخلاف بات کرتے انکی زبانیں شل ہو جاتی ہیں،، ریاستی تشخص اور قومیت کا جتنا خیال سواد اعظم اور اسکی قیادت نے رکھا کسی اور نے نہیں رکھا ، اس ریاستی تشخص اور قوم کے لیے جیلیں کاٹیں لیکن ریاست پاکستان جو تحریک ازادی کشمیر کی پشت بان ہے اسکے خلاف کوئی بات نہ کی ہے اور نہ یہ برداشت کی جا سکتی ہے،،، وہ کون سا ایسا ظلم ہے جو کشمیریوں نے حق کی خاطر برداشت نہیں کیا ۔ وہ کون سا ایسا قہر ہے جو ان پر پاکستان سے الحاق کے جرم میں ڈھایا نہ گیا ہو۔ وہ کون سی ایسی وحشت ہے جس کا سامنا کشمیریوں نے اسلام کے لیے نہ کیا ہو۔ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے کشمیریوں کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ’’ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول ﷺ اللہ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کشمیریوں کا یہ نعرہ آج سے نہیں ہے ۔ یہ تب بھی تھا جب 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کا دورہ کیاتھا۔ قرارداد لاہور کو پاس ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ، اسلام کے تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے،