سچ یہی ہے کہ میں نے مذہبی رجعتیت، غلامی، سرمایہ دارنہ نظام ،استحصال ،بدعنوانی،ظلم اور منافقت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ بھارتی حکمران اور پاکستانی جرنیل افسرشاہی کشمیر کو لمبے عرصے تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھ سکیں گے۔ہمارے لیۓ آزادی کے معنی صرف بیرونی قبضے کا خاتمہ نہیں ہے۔ہمیں غربت، بھوک، جہالت، بیماری اور رجعتیت سے آزادی درکار ہے۔معاشی اور سماجی محرومی سے چھٹکارا حاصل کرکے ہم آزادی لے کر رہیں گے؛مقبول بٹ شہید(لاہور ہائی کورٹ 1973ء)یہ وہ آدرش تھے جن آدرشوں پر مقبول بٹ نے کبھی سودے بازی نہیں کی کسی سامراجی ادارے کے لیے ایجنٹ کے طور کام کرتے محنت کشوں غریبوں کے لیے ٹسوے نہیں بہائے بلکہ اپنی زندگی جہد مسلسل میں گزار دی اور دنیا بھر کے محنت کش ساتھیوں انقلابیوں کے لیے اپنی زندگی کا نذرانہ دیتے ایک ہمت حوصلے کا استعارہ بن گیا۔مقبول بٹ شہید کو آج عقیدت سے تو دیکھا جاتا ہے لیکن مقبول بٹ کی شخصیت کو مقبول بٹ کے نظریات سے الگ کر دیا گیا ہے ۔مقبول بٹ آزدی پسند تھا جس کی جدوجہد کو محض قوم پرستی قرار دے کر اس کی لہو رنگ عظیم جدوجہد کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔انقلابی خواہ کسی خطے سے ہوں انقلابی ہونے کی پہلی شرط ہی یہی ہے کہ ایک انقلابی تعصب سے پاک تمام مظلوم ،محکوم انسانوں کو اپنی طرح کا انسان سمجھتا ہے ۔اور اپنے دکھ درد سانجھے ہونے باعث نہ صرف ان کی آواز ہوتا ہے بلکہ مظلوموں،محکوموں کو طبقہ تسلیم کرتا ہے۔مقبول بٹ 18 فروری 1938 ء کو کپواڑہ کے ایک قصبے ترہگام میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ترہگام کے پرائمری اسکول میں حاصل کی اور میٹرک ترہگام ہی کے ہائی اسکول سے پاس کیا اور پھر بی اے کے لیے سینٹ جوزف کالج بارہ مولا میں داخل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سینٹ جوزف کالج کے اس وقت کے پرنسپل جارج نے مقبول بٹ کے متعلق کہا تھا:”یہ نوجوان اگر راستے کی سختیوں کو سہہ گیا تو ایک بڑا آدمی بنے گا۔ مگر اس کے جیسے لوگ عام طور پر شدید مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں، کیونکہ جس طرح کی آزادی کا خواب وہ دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اکثر آزادی کی راہ پر قربان ہو جاتے ہیں“۔مقبول بٹ نے زمانہ طالب علمی میں ہی کشمیر کی آزادی کے لیے ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ پھر ناموافق حالات کے باعث مقبول بٹ شہید نے پہلی بار اپنے چاچا ساتھ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں اور پھر پاکستان میں ہجرت کی یاد 1947 سے پہلے آر پار کشمیری آسانی سے آتے جاتے تھے کسی قسم کی باڑ نہیں لگائی گی تھی ۔مقبول بٹ شہید نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر ایک اخبار ”روزنامہ انجام“ سے منسلک رہے۔ مقبول بٹ نے ایوب خان کے بی ڈی سسٹم کے تحت 1961 ء میں ہونے والے انتخابات میں مہاجرین کشمیر کی نشست سے پشاور سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اور آگے چل کر پھر محاذ رائے شماری پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی جس محاز رائے شماری کا بنیادی منشور مساوی معاشرے کی بنیاد پر تھا۔ سامراج کی بنائی ہوئی سرحدوں کی دیواریں چائے کتنی اونچی کیوں نہ ہوں جب محنت کش تحرک میں ہوتے ہیں انقلابی تحریکیں ابھرتی ہیں تو ایک سرحد پھلانگ کر دوسری سرحد پر بسنے والے محنت کشوں کو متاثر کرتی ہیں اور تحریکوں کی جو ثقافت رنگ ڈھنگ ہوتا ہے وہ عالمی ہوتا ہے اور طبقاتی جڑت قائم ہونے لگتی ہے جب مقبول بٹ شہید کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرداں تھا اس وقت بیشتر دنیا میں انقلابی تحریکیں موجود تھیں اور کئی ایک ریاستوں سے امریکہ سامراج کا تسلط ختم ہو رہا تھا اور کئی ڈکٹیٹروں کے تختہ دھڑن ہو رہا تھا اس اسی عہد میں لاطینی امریکہ میں امریکہ کے خلاف عوامی اور انقلابی تحریکیں تھیں جن میں قابل ذکر تحریک کیوبا میں کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میں تھی جس میں چی گویرا اور اس کے ساتھی مسلح جدوجہد سے ڈکٹیٹر بتیستا کا تختہ دھڑن کرتے ایک انقلاب برپا کرتے ہیں اور جو مسلح جدوجہد ایک خاص معروضی حالات میں درست بھی تھی اور اس جدوجہد سے جہاں دنیا بھر میں نوجوانوں متاثر ہو رہے تھے وہاں مقبول بٹ شہید بھی مسلح جدوجہد سے متاثر نظر آتے ہیں اور خیالات میں بڑی تبدیلی آئی اور آزادی کشمیر کے لیے سیاسی جدوجہد کے ساتھ مسلح جدوجہد بھی شروع کردی۔ سرحد پار کرکے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے اور لوگوں کو تربیت دینے لگے۔ستمبر 1966 ء کو بارہ مولہ کے نزدیک ایک گاؤں نادی ہل میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں مقبول بٹ اپنے ساتھیوں ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ غداری، جاسوسی، اور قتل کا مقدمہ چلایا گیا اوراگست 1968 ء بارہ مولا سیشن کورٹ کے جج نیل کنٹھ گنجو نے پھانسی کی سزا دی۔ مشہور ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران مقبول بٹ نے کہا تھا ”جج صاحب ابھی وہ رسی نہیں بنی جو مقبول بٹ کو پھانسی پر لٹکا کر مار سکے مجھے اپنی دھرتی پر چلنے پھرنے کے لئے کسی پرمٹ کی ضرورت نہیں۔ میرے اوپر لگائے گئے الزامات میں سے ایجنٹ کا لفظ ختم کیا جائے کیونکہ میں ایجنٹ نہیں خود آپ کا دشمن ہوں۔ “مقبول بٹ کے الفاظ سچ ثابت ہوئے، دسمبر 1968 ء کو اپنے دو ساتھیوں سمیت جیل توڑ کر سیز فائر لائن کراس کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا یہاں گرفتار کرلیا گیا اور کچھ ماہ بعد ہی رہا بھی کردیا گیا۔ مقبول بٹ دوبارہ سیاست میں فعال ہوگئے۔ آپ محاز رائے شُماری کے صدر مُنتخب ہوئے اور گلگت بلتستان کا دورہ کرکے وہاں کے لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کے لیے آمادہ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ دلانے کے لیے جنوری 1971 ء کو مقبول بٹ نے ہاشم قریشی اور محمد اشرف قریشی کے ذریعے بھارت کا ایک طیارہ گنگا ہائی جیک کروایا۔ اس طیارے کے مسافروں کو بعدازاں رہا کردیا گیا اور طیارہ جلا دیا گیا۔ پہلے جس شخص کو طیارہ اغواء کرنے پر ہار پہنائے گئے بعد میں اسے حکومت پاکستان نے غداری کے الزام میں مری سے گرفتار کرلیا۔ اور اس طرح پاکستانی ریاست کی منافقت بھی کھل کر سامنے آئی بعد میں مقدمہ چلا اور 1974 ء کو مقبول بٹ بری ہوگیا۔1976 ء میں مقبول بٹ دوبارہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا تاکہ آزادی کی تحریک کو منظم کیا جاسکے۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی پکڑا جاتا ہیں اور کو سرینگر سے تہاڑ جیل دہلی منتقل کردیا جاتا ہے اور سابقہ سزائے موت بحال کردی جاتی ہے۔ بھارت میں گرفتاری پر زبردست مظاہرے ہوتے ہیں۔ پھر 1981 ء میں بھارت کی جانب سے کو پھانسی دینے کا اعلان ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ کو احتجاج اور عالمی دباؤ کے باعث موخر کردیا جاتا ہے۔ آخر کار بھارتی حکومت 11 فروری 1984 ء کو آپ کو تہاڑ جیل دہلی میں پھانسی دے دیتی ہے۔ آپ کی لاش ورثہ کے اصرار کے باوجود ان کے حوالے نہیں کی گئی اور آپ کی قبر جیل میں ہے۔مقبول بٹ شہید نے اپنی زندگی میں دونوں ریاستوں پاکستان اور بھارت کے استحصال جبر اور غیر قانونی قبضہ کے خلاف جدوجہد کی مقبول بٹ شہید کو بھارتی ریاستی حکمران پاکستان کا ایجنٹ سمجھتے تھے ۔اور پاکستانی ریاست کے حکمران بھارت کا ایجنٹ سمجھتے تھے لیکن مقبول بٹ نے کئی بار واشگاف الفاظ میں کہا ہاں میں ایجنٹ ہوں لیکن پاکستان اور بھارتی حکمرانوں کا ایجنٹ نہیں بلکہ کشمیری عوام کا ایجنٹ ہوںآج مقبول بٹ شہید کو۔ آر پار ریاستیں مین سٹریم میڈیا پر تو جگہ نہیں دیتی لیکن مقبول بٹ شہید آج بھی کشمیر میں بسنے والے ہر انسان کے لیے ایک رہنماء کی حیثیت رکھتا ہے مقبول بٹ کی جدوجہد کو ہر مکتب فکر کے انسان تسلیم کرتا ہے لیکن پاکستان اور بھارتی ریاست مقبولِ بٹ شہید کی عظیم جدوجہد کو عوامی آنکھ سے اوجھل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش رہیتے ہیں مقبول بٹ کی جدوجہد کو کبھی مذہبی رنگ کبھی دہشتگردی کا رنگ دیتے یہ ریاستیں یہاں کے نوجوانوں کو اپنے مذہوم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔مقبول بٹ شہید جدوجہد کا استعارہ تھا اور ہے اور انقلابی جو ظلم ناانصافی کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں ۔وہ کسی ایک قوم خطے کی عوام اور انقلابیوں کا سرمایہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا راستہ ان کی جدوجہد تمام انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہو ہوتی ہے ۔مقبول بٹ شہید کو پھانسی لٹکا دیا گیا لیکن مقبول شہید کے نظریات کو اس وقت تک پھانسی پر نہیں لٹکایا جا سکتا جب تک سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نا انصافی استحصال باقی ہے ۔مقبول بٹ شہید کے عہد سے کئی زیادہ آج اس جبر نا انصافی محکومی کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے آج سرمایہ دارنہ نظام تاریخ کے گہرے بحران میں شکار انسانی زندگی نگل رہا ہے ۔اور مقبول بٹ شہید کی جدوجہد بھی اس خونریزی پر مبنی نظام کے خلاف تھی ۔جو جدوجہد محض کسی زمینی ٹکڑے کے بجائے وسیع تر انسانیت کی خوشحالی کی ضمانت تھی ۔مقبول بٹ شہید کی جدوجہد ہر عہد کے انقلابیوں کے لیے حوصلہ اور شکتی باعث ہے اور ایک عظیم انقلابی کو بہترین خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک انقلاب ہی ہو سکتا ہے ۔اس استحصال نا انصافی خونریزی کے خلاف محنت کشوں نوجوانوں کو منظم ہونا ہو گا۔اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی مستقبل کی نسل انسانی کو بچانے کے ساتھ تمام انسانیت کو خراج عقیدت پیش کی جا سکتی ہے