پہنچی خاک وہیں پہ، جہاں کا خمیر تھا…مریم نواز شریف کی آمد

تحریر:اظہر اعجاز

آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس ایک مسلمہ حقیقت ہے ہے جس کی بنیاد پتھر مسجد سرینگر میں رکھی گئی اور کئی غازیوں مجاہدوں اور شہداء کی جدوجہد کی آمین ہے.
کشمیر اور پاکستان کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے جس کی بنیاد مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 47 کو مہیا کی اور قائد اعظم محمد علی جناح 4 مرتبہ کشمیر کے دورے پر آئے اور جب 1944 کو سرینگر کے دورے پر تھے تو مسلم کانفرنس کی میزبانی تھی اور مسلم کانفرنس کے قائد جناب قائد ملت چوہدری غلام عباس کے ہاتھ میں پرچم تھمایا تھا اور کہا کہ برصغیر کی جتنی ریاستیں ہیں ان میں مسلم لیگ قائم کریں گے لیکن ریاست جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنسی مسلم لیگ کی نمائندہ جماعت ہے اور غلام عباس میرے جانشین ہیں یہ سلسلہ چلتا رہا درمیان میں پاکستان کے اندر مارشلائی دور آئے جس میں ریاست کی قیادت کو نظر بند کیا گیا گرفتار کیا یہاں تک کے مسلم کانفرنس کی قیادت کو ابڈو کیا گیا لیکن پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ پاکستان کی قوم افواج پاکستان اور مملکت پاکستان کو مقدم رکھا گیا حکومت سے کھلی جنگ رہی جو ایک جہد مسلسل ہے لیکن مملکت پاکستان کشمیریوں اور خاص کر مسلم کانفرنس کی قیادت کے لیے خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کے بعد دوسرا نام تھا اور ہے بھی.
مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کا رشتہ ازل سے ہے جس کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی تھی اور قائد اعظم کی کشمیر پالیسی بھی یہی تھی کہ کشمیریوں کو حق دیا جائے اور وہ اپنا کیس خود لڑیں پاکستان انکی پشت پر رہے گا یہی انکا ویثزن تھا تب ہی تو انہوں نے کشمیریوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو پاکستان کی نمائندہ جماعت کہا تھا کیونکہ قائد اعظم دور اندیش اور اعلی پائے کے سیاستدان تھے وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر میں مسلم کانفرنسی کا وجود پاکستان کے لیے ثود مند ثابت ہو سکتا ہے جبکہ اپنی جماعت بنا کہ وہ مقاصد حاصل نہیں کئیے جا سکتے اور یہ سلسلہ ایک عرصے تک رہا اور مسلم کانفرنس ریاست میں مسلم لیگ ہی تصور کی جاتی رہی پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد متعدد مرتبہ آزاد کشمیر کے دورے پر آئے کشمیر ہاوس آتے رہے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کو ایڈریس کرتے رہے اور مسلم کانفرنس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کے منتخب وزیرآعظم جناب محمد نواز شریف نے مسلم کانفرنس کے زیر اہتمام جلسہ جس کی صدارت ممتاز کشمیری لیڈر جہاد آزادی کے سرخیل جناب مجاہداول سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب کی نیلابٹ کے مقام پر 23 اگست 1997 کو ایٹمی دھماکے کا اعلان کیا تھا اور بعدازاں 28 مئی 1998 کو بین الاقوامی دنیا کے دباؤ کے باوجود منتخب وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ایٹمی دھماکا کیا اور دنیا اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کا اعزاز دیا مملکت پاکستان کو.
لیکن وقت اور حالات کی بدلتی ہوئی صورتحال اور سیاسی حالات باہمی کشمش کے پیش نظر مسلم کانفرنس کو سائیڈ لائن کیا گیا اور سائیڈ لائن ڈیزائن کے ساتھ کیا مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کی گئی میاں صاحب سے آزاد کشمیر کے اندر مسلم لیگ قائم کروا کر قائد اعظم کے ویثزن اور کشمیر پالیسی کو ختم کرنے کی ایک سازش رچائی گئی لیکن اس سارے عمل کے باوجود مسلم کانفرنس کے کارکن میاں نواز شریف سے محبت کرتے رہے بظاہر تو نہیں لیکن دل ہی دل میں میاں نواز شریف کو وہی مقام دیتے رہے جو کہ مجاہداول کے وقت میں تھا اور یہی کارکنان مسلم کانفرنس کی محبت تھی انکی تربیت اور بہترین نیت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر وقت اور حالات کو ایسا بنا دیا کہ آج میاں نواز شریف کی لخت جگر دختر پاکستان محترمہ مریم نواز صاحبہ انکے ساتھ سابق وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید صاحب اس سے پہلے وفاقی وزیر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق چل کر اس شخص کے قبر پر حاضر ہوتے ہیں اور اپنی بے مثال عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور انکے سیاسی وارث صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سابق وزیرآعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سردار عتیق احمد خان صاحب سے ملاقات کرتی ہیں مجاہداول جنہوں نے میاں صاحب کی سیاست میں اہم م کردار ادا کیا اور پھر پاکستان کے چپے چپے میں جاکر مسلم لیگ اگٹھی کر کہ ایک نظریہ کھڑا کیا تھا جو کہ ایک طویل عرصے تک موجود ہے اور آج آزاد کشمیر کے اندر کارکنان مجاہداول دونوں اطراف قربت اختیار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو کہ مسلم کانفرنس کی لیڈر شپ اور مسلم لیگ کی لیڈر شپ کے لیے نیک شگون ہے..


آزاد کشمیر کے اندر الاینسز بنتے رہتے ہیں اور ٹوٹتے بھی ہیں سیاسی جماعتوں اور جمہوری رویوں میں تمام دروازے کھلے رہتے ہیں سیاست نام ہے لچک کا اور جو سیاستدان لچک پیدا کر دیتا ہے وہ فائدہ بھی اٹھاتا ہے پاکستان کی موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت دیکھیں تو یہ واضح مثال ہے کہ کہ کل میاں نواز شریف شہباز شریف اور زرداری صاحب مولانا فضل الرحمن صاحب کیا کچھ نہیں کہتے تھے لیکن ایک کاز آیا اسکو ایچیو کرنے کے لیے ماضی بھو لا کے اگٹھے ہو گئے اور آج مشترکہ حکومت میں بیٹھے ہیں اس لیے جاندار معاشرے میں اور مثبت سوچ و فکر کی موجودگی میں یہ پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس آزاد کشمیر میں کیوں اگتھی ہوئی یا نہیں ہونی چاہیے تھی اس لیے کہ یہ ایک نظریہ دو حصوں میں تھا اس لیے اگر نظریاتی ووٹ اگٹھا ہو رہا ہے اور کوئی جم گٹھ ہو رہا ہے تو یہ ہونا چاہیے ریاست کے استحکام تحریک آزاد کشمیر کے بیس کیمپ کو ایک موڑ دینے کے لیے اشد اس بات کی ضرورت تھی جو کہ شاید اب 9 مئی کے واقعات کے بعد اور پاکستان کی بدلتی ہوئی جاندار فارن پالیسی جس میں کشمیر ایشو عیاں ہے اور شہباز حکومت اور بلاول بھٹو کی فارن پالیسی کی کامیاب حکمت عملی اور دورہ ہندوستان ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں نظریاتی قوتوں کا اگٹھے ہونا انتہائی ضروری سمجھا جانے لگا ہے اور جس کی پہلی اینٹ آزاد کشمیر سے رکھی جارہی ہے مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کے اتحاد کی صورت میں دونوں اطراف استقامت کے لیے دعا گو ہیں.
………………. کشمیر بنے گا پاکستان………………