وسطی کا الیکشن… تلخ حقائق

تحریر……… عباس کاشر

وسطی حلقہ الیکشن کے اعتبار سے بہت ہی پیچیدہ، غیر یقینی صورتحال کے ساتھ ساتھ انتہائی مشکل و منفرد حلقہ انتخاب ہے اس حلقہ انتخاب کی تاریخ نے کئی بار تجزیہ نگاروں کے اندازوں کا اولنگن و دعووں اتمان کیا… جنرل الیکشن ہوں یا ضمنی انتخاب یہاں کے مکینوں کی اپنی ہی دنیا ہے.. فطری اعتبار سے بھی یہ حلقہ انتخاب و اس کے باسی خوش نصیبی جیسے بھگوان سے لکھوا کے لائے ہیــں… غالباً یہ دوسرا ضمنی انتخاب ہے جس میں یہاں کے لوگ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے کسی ایک کو کچھ عرصہ کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کریں گے اور جنرل الیکشن میں بھی اس حلقہ کے عوام نےکبھی کسی بھی شخصیت کی پوجاپاٹ نہیں کی…. جتنا اس حلقہ کے باسیوں کو لیڈر کی ضرورت تھی اتنا ہی عوام و حلقہ اس سے مستفید ہوئے…… بس! اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس حلقہ سے انتخاب لڑنے والے متعدد لیڈران نے وزارت عظمیٰ کا پر فریب نعرہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے میدان میں اترتے رہے ہیں. گذشتہ الیکشن میں اس موقف پر کامیابی حاصل کرنے والے سردار تنویرالیاس خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا لیکن مضبوط بیورو کریسی ونادیدہ قوتوں سے محاذ آرائی کا نتیجہ بعد ازاں عدالت عالیہ و اعظمی کے برق رفتار فیصلوں کی بدولت نااہل قرار دے جانے کے بعد یہ نشست خالی ہوئی جس پر الیکشن کمیشن نے الیکشن کا شیڈول جاری کیا جس کے ساتھ ہی اس اکھاڑے میں نئے عزم و جذبے کے ساتھ درجن بھر نمائندوں نے پنجہ آزمائی کےلیے کمر کس لی ہے… اس خطہ میں جمہوریت و جمہوری اقدار کبھی بھی پروان نہیں چڑھ سکی صد سالہ تاریخ کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو سوائے ماتم کے کچھ حاصل نہیں جب برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی شہنشاہیت باہم عروج تھی تو پوری ریاست جموں کشمیر پر مہاراجا کے خاندان کی حاکمیت قائم تھی اس عہد کے اعتبار سے جتنی جمہوریت کے لئے گنجائش تھی اس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یکے بعد دیگرے تین الیکشن ہوئے سب سے پہلے 1934 میں بالواسطہ الیکشن کروائے جاتے ہیں دوسرے برائے راست الیکشن 1938 میں کرائے جاتے ہیں جس میں نیشنل کانفرنس واضع اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی ہے تیسرے برائے راست الیکشن 1946 میں کروائے جاتے ہیں جس میں نیشنل کانفرنس الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہے اور الیکشن سے قبل مہاراجہ کے مستفی ہونے مطالبہ کرتی ہے اس الیکشن میں مسلم کانفرنس نے 42 کے ایوان سے 26 نشستیں حاصل کی تھی 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہمیں ملنے والی آزادی کے نتیجے میں اس چناؤ میں تعطل آگیا اور اگلے 23 سال یہاں کے عوام نے الیکشن اور جمہوریت کو نامزدگیاں کے طفیل سہولت کاری کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ایسے بیج بوہیں ہیــں کے ان تناور درختوں کی اب قلمکاری جاری ہے نامزدگیوں کا یہ سلسلہ 1947 سے شروع ہو کر 1970 تک جاری رہا، سلسلہ اب بھی وہی ہے پہلے وظائف دے جاتے تھے اب معاوضے لے کر سہولت کاری کروائی جاتی ہے
1947 سے 1970 تک درجن بھر منظور نظر افراد کو نامزد کیا گیا ہے
1- 24 اکتوبر 1947 تا 12 مئی 1950 سردار ابراہیم خان
2- 13 مئی 1950 تا4 دسمبر 1951 کرنل سید علی احمد شاہ.
3- 04 دسمبر 1951 تا 20 مئی 1952 میر واعظ یوسف شاہ
4- 21 مئی 1952 تا 21 جون 1952 راجا محمد حیدر (عبوری صدر).
5- 21جون 1952تا 30 مئی 1956 کرنل شیر احمد خان
7- 30 مئی 1956 تا 08 ستمبر 1956 میر واعظ یوسف شاہ
8- 01 اکتوبر 1956 تا 12 اپریل 1957 سردار عبدالقیوم خان
9- 13 اپریل 1957 تا 30 اپریل 1959 سردار ابراهيم خان.
10- 01 مئی 1959 تا 7 اگست 1964 کے- ایچ-خورشید (بلاواسطہ الیکشن کے بعد)
11- 8 اگست 1964 تا 7 اکتوبر 1969 جسٹس عبد الحميد خان
12- 08 اکتوبر 1969 تا 30 اکتوبر 1970 برگیڈیر عبدالرحمن خان.
یاد رہے کہ محروم کے ایچ خورشید نے اپنے عہد صدارت میں رولز آف بزنس کو متعارف کروایا تھا بعدازاں 1962 ایکٹ کے تحت عدالتوں کا قیام، محکمہ پولیس، اور تعلیمی اداروں کی آپ گریڈیشن. ایکٹ 1966 کا نفاذ اور اس کے بعد آزاد حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کے مطالبے کے بعد کے ایچ خورشیدِ کا سیاسی کیئر اختتام کو پہنچا تھا.
1970ء میں پہلے باقاعدہ الیکشن ہوئے جو کہ صدارتی الیکشن تھے اس میں مسلم کانفرنس کے سردار عبدالقیوم کامیاب ہوئے آزاد مسلم کانفرنس کے سردار ابراہیم اور محاذ رائے شماری کے محمد شریف بدستور دوسرے و تیسرے نمبر پر رہے. بعدازاں 16 اپریل 1975 تا 05 جون 1975 تک شیخ منظر مسعود کو عبوری صدر نامزد کیا گیا اور 1975 کے الیکشن کرائے گئے
1970ء کے الیکشن میں تحصیل باغ شرقی و وسطی ملا کر ایک ہی حلقہ تھا اس وقت ہونے والے انتخابات میں یہاں سے مجیر ریٹائرڈ محمد ایوب خان ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے.
1975ء میں شرقی و وسطی دو الگ الگ حلقے بنے
وسطی باغ سے مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر راجا محمد سبیل کامیاب ہوئے.
جماعت اسلامی سے سردار علی افسر خان دوسرے نمبر پر رہے.
ان الیکشن کے بعد پاکستان میں ضیاءی مارشل لاء نے نوآبادیات پر بھی اثرات چھوڑے جنرل ریٹائرڈ حیات کا دور تقریباً 10سال پر محیط رہا.
1985ء میں یہاں الیکشن ہوئے اور حلقہ وسطی باغ سے جنرل ریٹائرڈ محمد حیات خان کی تحریک عمل پارٹی کے ٹکٹ پر راجا محمد رفیق کامیاب ہوئے.
مسلم کانفرنس کے سردار رشید چغتائی اور آزاد امیدوار سردار قمر الزمان بدستور دوسرے و تیسرے نمبر پر رہے.
1990ء میں اس حلقہ سے آزاد امیدوار سردار قمر الزمان خان کامیاب ہوئے. مسلم کانفرنس کے راجا عبدالجبار، تحریک عمل کے راجا محمد رفیق بدستور دوسرے و تیسرے نمبر پر رہے
یہ ممتاز حسین راٹھور کی حکومت تھی جنھوں نے یہاں کی اشرافیہ کے طرزِ سیاست کو بدلنا چاہا اور اس ریاست کے وسائل اور اسکے اندر بسنے والوں کے حقوق کی بات کرنا شروع ہی کی تھی کہ نادیدہ قوتوں نے ممتاز راٹھور جیسی قدر آور شخصیت کو اپنی ہی اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا.
1991 میں الیکشن ہوئے تو اس حلقہ سے مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر راجا محمد یٰسین کامیاب ہوئے
آزاد امیدوار راجا محمد سبیل دوسرے نمبر پر رہے
گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے سردار قمر الزمان نے اس بار شرقی سے الیکشن لڑا تھا.
1996ء میں الیکشن ہوئے تو اس حلقہ سے متحدہ مجلس عمل /جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر عبدالرشید ترابی کامیاب ہوئے.
راجا یٰسین ال جموں کشمیر مسلم کانفرنس
سردار طاہر اقبال مسلم لیگ، پیپلزپارٹی (چھٹہ )
سردار اشتیاق اکرام جے کے پی پی بدستور نمبرز پر رہے
2001ء میں الیکشن ہوئے تو اس حلقہ انتخاب سے راجا محمد سبیل مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے.
عبدالرشيد ترابی جماعت اسلامی
سردار طاہر اقبال – جے کے پی پی
سردار راشد قمر آزاد امیدوار
سردار امجد یوسف پی پی پی آزاد کشمیر بدستور نمبرز پر رہے
2003ء میں کامیاب امیدوار راجا محمد سبیل کی وفات کے بعد یہاں ضمنی الیکشن ہوئے تو آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر راجا محمد یٰسین کامیاب ہوئے
سردار قمر الزماں پی پی پی آزاد کشمیر
عبدالرشید ترابی جماعت اسلامی بدستور نمبرز پر رہے.
2006ء میں ہونے والے الیکشن میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر کرنل ریٹائرڈ راجا محمد نسیم کامیاب ہوئے.
سردار قمر الزماں خان پی پی پی آزاد کشمیر.
عبدالرشید ترابی جماعت اسلامی بدستور دوسرے تیسرے نمبر پر رہے
2011ء میں الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سردار قمر الزمان خان کامیاب ہوئے
کرنل ریٹائرڈ راجا محمد نسیم مسلم کانفرنس
عبدالرشید ترابی جماعت اسلامی
بدستور دوسرے تیسرے نمبر پر رہے
2016ء میں ہونے والے الیکشن میں اس حلقہ سے
نئی بننے والی جماعت مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر راجا مشتاقِ منہاس کامیاب ہوئے
کرنل نسیمِ کی وفات کے بعد انکے بھائی راجا خورشیداحمد – پی ٹی آئی آزاد کشمیر
عبد الرشید ترابی- جماعت اسلامی
سردار قمر الزمان خان- پی پی پی آزاد کشمیر، بدستور دوسرے تیسرے نمبرز پر رہے
2021ء میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقہ سے نئی بننے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سردار تنویر الیاس کامیاب ہوئے
سردار ضیاء القمر- پی پی پی آزاد کشمیر
راجا مشتاق منہاس – پی ایم ایل ن آزاد کشمیر
راجا محمد یٰسین آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس، بدستور دوسرے تیسرے نمبرز پر رہے.
اگلے ہفتہ ہونے والے الیکشن یقیناً تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی نئی بات نہیں ملے گی،کوہلہ پار سے مداخلت ہی اصل فیصلہ پر اثر انداز ہوتی آئی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن اس سب کے درمیان جو باتیں مثبت نتائج کا سندیسہ دیتی ہیــں انہیں ضرور موضوع بحث بنایا جانا چاہئے اس محرکہ میں حصہ لینے والے زیادہ تر نوجوان ہیــں جن سے ماضی کے مزاروں پر ماتم کے بجائے نوید سحر کی توقع رکھی جا سکتی ہے!
سردار ضیاء القمر!
پیپلزپارٹی کی طرف سےامیدوار سردار ضیاء القمر انتہائی خوش اخلاق ،معزز و مدبر سیاسی طرزِ عمل لگن اور جستجو سے اسٹوڈنٹس سیاست سے تاحال پارٹی کی مرکزی سطح پر مقام بنایا جماعت وحلقہ کی سیاست میں مصروف عمل ہیں گذشتہ تین الیکشن میں تسلسل کے ساتھ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا گو کہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن حلقہ کے عوام کے ساتھ بالعموم اور نوجوان کے ساتھ بالخصوص اپنے تعلق کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیا یہی وجہ ہے کہ اسی حلقہ سے2021 کے الیکشن میں پہلی بار حصہ لیتے ہوئے تقریباً 18000ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے ہیں ریجنل بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر اپنے منفرد انداز بیان کے زریعے پیپلزپارٹی کے نظریات سے نوجوانوں کو جوڑے رکھنا تعمیری سوچوں کو پروان چڑھانے اپنی تقاریر میں نوجوانوں کی اصلاح، حلقہ کے مسائل، پارٹی کی قیادت کے ساتھ ہمہ وقت رابط بہتر لائحہ عمل پر حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیتوں کےحامل نوجوان ہیــں.
راجا مشتاق منہاس!
پڑھے لکھے باشعور ایک انتہائی خوش اخلاق، ملنسار و نفیس شخصیت حامل سیاسی رہنما ہیــں اسٹوڈنٹس سیاست میں زیادہ سرگرم عمل نہیں رہے ہیں صحافت میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں پاکستان مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ قریبی مراسم ہی ان کی کامیابی کی ضمانت رہی 2016 کے الیکشن میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے2021 کے الیکشن میں پھر حصہ لیا اور تقریباً 12000ووٹ لے کر ناکام رہے لیکن حلقہ کے لوگوں سے اپنا تعلق نہ ٹوٹنے دیا ان کے رفقاء انکے رویے سے بڑے متاثر ہیــں اور سب سے بڑھ کر کے کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہیــں حلقہ میں تعمیراتی کاموں اور عوام کا خصوصی خیال رکھتے ہیں.
کرنل ریٹائرڈ محمد ضمیر!
پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے کرنل ریٹائرڈ محمد ضمیر پاک فوج میں خدمات سرانجام دینے کے بعد عوام علاقہ کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو میدان عمل میں آئے ہیں. پہلے پیپلزپارٹی پارٹی میں شامل ہوئے اور پیپلز پارٹی کے حکومت کے دوران وزیراعظم کے ایڈوائزر کے عہدے پر فائز رہے.
راجا ذوالفقار ایڈووکیٹ.
آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدوار راجا ذوالفقار حیدر ایڈووکیٹ مسلم کانفرنس کے انتہائی چاک چوبند رکن ہیں ضلعی سطح پر متعدد عہدوں پر رہے اس کے علاوہ لیگل ایڈوائزر ایرا سیرا اپنی خدمات سر انجام دی اوتھ کمیشنر بھی ریے، انتہائی ہمدرد طلباء سیاست سے مسلم کانفرنس کے اسٹوڈنٹس ونگ کے ساتھ منسلک رہے راجا سبیل، راجا یٰسین، و راجا نسیم کے قریبی ساتھیو میں شامل رہے ہیں 2016 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی2021 میں مشتاق منہاس کے ساتھ ٹکٹ پر اختلاف کے باعثِ مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر مسلم کانفرنس کی باگ ڈور سنبھال لی. اس بار پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں.
اس بار ہونے والے الیکشن میں سبھی امیدوار تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد ہیــں یاد رہے کہ جس طرح آج آپ اپنی تمام تر مصروفیات کو بالا طاق رکھتے ہوئے ان سادہ لوح لوگوں کو اپنے پُرسوز آوز، دلفریب مسکراہٹوں و مدلل تقریروں سے متاثر کرتے ہیں جیتنے کے بعد انہیں دھوکوں و دھکے سے بچانا جتنا دردِ اور تعلق آج انکے لئے ہے اس اپنی کامیابی کے بعد اس سے نصف انہیں ضرور بخشنا… اور سب سے بڑھ کر ایک ریاست ہو گی تو سیاست رہے گی آپ میں سے کوئی ایک تو منتخب ہو کر اس ایوان کا حصہ بنے گا لیکن آپ کی یہاں بیان کیے گئے اوصاف تب بدرجہ اتم پہ پہنچیں گے جب آپ سیاست پر ریاست کو ترجیح دیں گے تاریخ میں انمول کردار، اعلیٰ افکار، عظیم نظریات زندہ رہتے ہیں.