منٹو پارک کی نئی قرارداد

تحریر راجہ عابد علی عابد

خیال تھا کہ ایک عرصے سے سوشل میڈیا اور میڈیا پر منفی باتیں کر کے جس طرح کے حالات پیدا کیے گیے ہیں تو عوام شاید دلچسپی کا مظاہر نہ کریں آخری رات بھی میاں صاحب کی آمد کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کے جاتے رہے۔لیکن جب اکیس اکتوبر کے دن مینار پاکستان کے احاطہ میں جا کر عوام کا جمع غفیر دیکھا تو میں ورطہ حیرت میں پڑ گیا کہ ابھی تو جلوس آئے ہی نہیں تھے تو یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں کدھر سے آ گئے ہیں۔
دن دو بجے داتا دربار میں دعا کی اور پیدل جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔جلسہ گاہ کے اطراف میں مختلف داخلی دروازے بنائے گئے تھے تاکہ لوگ سہولت کے ساتھ جلسہ گاہ میں داخل ہو سکیں۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے پانچ نمبر داخلی دروازہ متعین کیا گیا تھا۔ جو داتا دربار سے آتے ہوئے سیدھے ہاتھ مینار پاکستان کے سامنے فلائی آور کے عین نیچے پڑتا تھا۔ جونہی داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو سامنے آزاد کشمیر کا استقبالیہ کیمپ لگا تھا۔جہاں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر لاہور کے عہدیداران جلسہ میں آنے والے کارکنان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ سب سے پہلے سیکرٹری جنرل چوہدری طارق فاروق صاحب سے ملاقات ہوئی جنھوں نے والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا اور شفقت سے نوازا۔
پولیس کی بھاری نفری جلسہ کے حفاظتی انتظامات میں لگی ہوئی تھی داخلی دروازوں پر آنے والے سب لوگ چیکنگ کے مرحلے سے گزرتے تھے۔ چیکنگ کے دو مراحل سے گزر کر جب جلسہ گاہ کے اندر داخل ہوئے تو اس وقت جلسہ گاہ تقریبا بھر چکی تھی۔ اکا دُکا چھوٹے چھوٹے جلوس پہنچ رہے تھے لیکن کوئی قابل ذکر جلوس ابھی جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہوا تھا۔ میں نے سروے شروع کر دیا کہ پتا تو چلے تین بجے کہ جب ابھی جلوس بھی نہیں پہنچے ہیں تو لوگ کیسے آئے ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ مختلف علاقوں سے لوگ اپنے طور پر پہلے ہی مینار پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
قبل ازیں میرا خیال تھا کہ اکیس اکتوبر کو بنی گالہ سے شاہ غلام قاد ر صاحب کے ساتھ جانے والے قافلے میں شریک ہو کر جلسے میں شرکت کروں لیکن بعد میں میں ایک دن پہلے چلا گیا۔ شاہ صاحب آزاد کشمیر سے ایک بڑے قافلے کے ساتھ لاہور پہنچے تھے۔ جلسے کی تیاری کے حوالے سے شاہ غلام قادر صاحب نے دن رات محنت کی تھی۔ آزاد کشمیر بھر کا دورہ کیا۔ تمام کارکنان،عہدیدارن، اور ذمہ داران کو متحرک کرنے کے لیے دن رات ایک کیا۔عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ساری پارٹی کو متحد کر دیا۔ پارٹی کے سارے ذمہ داران نے مل کر اتنی محنت کی کہ نیلم سے لے کر بھمبر تک سے ہزاروں لوگوں نے جلسہ گاہ کی طرف رخ کیا۔آزاد کشمیر لیڈر شپ کے اندازے سے زیادہ لوگ جلسہ میں شریک ہوئے۔ شاہ غلام قادرصاحب دو کلو میٹر دور سے پیدل چل کر جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ بڑے جلوس کے ساتھ جب وہ جلسہ گاہ پہنچے تو آزادکشمیر کے استقبالیہ کیمپ پر ان کا کارکنون نے پر جوش نعروں سے زبردست استقبال کیا۔
سورج ڈھل رہا تھا اوربجلی کی روشنیاں اپنی کرنوں سے جلسہ گاہ کو بقاء نور بنارہی تھی۔ جلسہ مینار پاکستان کے درودیوار سے باہر اطراف میں موجود سڑکوں گلیون محلوں تک پھیل چکا تھا۔لاہور میں داخل ہونے والے راستے قافلوں سے ڈھک چکے تھے۔ ایک ہیلی کاپٹر جلسہ گاہ کے اوپر نمودار ہوا جس میں میاں صاحب لاہور میں داخل ہو رہے تھے۔ایک جذباتی منظر تھادیوانہ وار لوگوں نے ہاتھ لہرا کر اپنے قائد کو خوش آمدید کہا۔
میں سوچتا تھا کہ شائد پاکستان کے نوجوان میاں نواز شریف کو چھوڑ چکے ہیں ظاہر ہے جس قدر پاکستان کے نوجوانون کے ذہن کو پراگندہ کیا گیا ہے تو یہ خیال کرنا کوئی غیر مناسب بھی نہیں تھا لیکن میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہائی نہ رہی کہ جب قافلوں کے ساتھ آنے والے نوجوانوں کو پارٹی کے جھنڈے اٹھائے اچھلتا کودتا پرجوش انداز سے جلسہ گاہ داخل ہوتے دیکھاجووالہانہ انداز سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔
سٹیج کے جذباتی مناظر ساری قوم نے دیکھے۔جلسہ گاہ میں موجود لوگ فرط جذبات پر قابو نہیں پا رہے تھے۔ میں نے نوجوانون کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھے بالخصوص جب مریم نواز اور شہباز شریف کو اپنی بانہوں میں لے کر سینے سے لگایا تو لوگ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ یہ پاکستانی سیاست کا ناقابل فراموش منظر تھا۔میاں صاحب نے جب بسم اللہ سے آغاز کیا تو سارے پنڈال میں ایک شور بلند ہوا۔ چار سال کے بعد میاں صاحب کی آواز لوگوں کے کان میں پہلی بار پڑ رہی تھی اس آواز سے لوگوں کی ایک قلبی وابستگی سی ہے۔یہ آواز سن کر لوگ جذباتی انداز سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے تھے۔
اکیس اکتوبر کی شام مینٹو پارک مین موجود مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر اپنے قائد کے ساتھ نئی قرارداد پر اعتماد کا اظہار کر رہی تھی۔ میاں صاحب اپنے دکھوں کو ایک طرف رکھ کر مخالفین کو معاف کر رہے تھے۔مل کر چلنے کا عزم کر رہے تھے۔ ملک کو سیاسی، معاشی اور اخلاقی اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جانے کی بات کر رہے تھے۔ اور پاکستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے لاکھوں لوگ اپنے قائد کے ساتھ ایک نئے عمرانی، سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اور ترقی کے ایجنڈے پر اعتماد کا اظہار کررہے تھے۔
مخالفین کے تمام تر توقعات پر پانی پھیر کر میاں نواز شریف نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک نئے سفر کی بنیاد رکھ دی ہے جس پر قوم کا ان پر مکمل اعتماد ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اکیس اکتوبر کے بعد نئے عزم سے آگے بڑھے گا۔