تحریر :سردار انور
انسان اور انسانی سماج کے ارتقاء کا سفر جنگلوں غاروں سے لےکر .. غلام داری… جاگیرداری.. سرامایہ داری… اور اب جدید انفارمیشن (infornation).. بائیو ٹکنالوجی( Biotechonology) … Spece Techonology) تک جاری ھے… ارتقاء کے اس طویل سفر میں میں..سیاسی.. سماجی.. سانئسی… معاشی ..اور ادبی تخلیق کاروں اور مزاحمت کاروں کا بنیادی کردار رہا ھے…. جدید علوم اور جدید سماج کی تشکیل کے لیے ..سقراط .. سے لیکر امام حیسن ..گلیلیو… برانو… مارک ٹاویں… چی گیورا… ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ.. بگھت سنگھ… سے لے کر ..جدید ریاست جموں کشمیر کے بانی ..مقبول بٹ شیہد تک ہزاروں مزاحمت کاروں اور تخلیق کاروں کا اپنے اپنے عہد میں کلیدی کردار رہا ھے…جہاں بادشاہت اور حکمرانوں کی تاریخ ھے وہاں مزاحمت کاروں اور تخلیق کاروں کی بھی اپنی ایک تاریخ ھے.. ظلم اور مظلوم.. حاکم اور محکوم… الہ کاروں سہولت کاروں اور مزاحمت کاروں.. مزدورں اور مالکوں.. مزاعروں اور جاگیرداروں کی آپس کی کشمکش اور جنگ کا تاریخی سفر جاری ھے جو اس وقت تک جاری رھے گا جب تک …انسان دشمن سماج… کے بجاے…انسان دوست سماج غیر طبقاتی سماج ..کی تشکیل ھوتی… دوسری عالمی جنگ ( 1939…1945) کے بعد جہاں سامراجی اور اجارہ دار قوتوں نے معاشی منڈیوں پر قبضے کے لیے دنیا بھر کے حصے بکھرے کیے وہاں برصغیر کو بھی سامراجی قوتوں نے اپنے ڈائزن اور خدوخال کے مطابق تقسیم کیا.. جس کے نتجے میں تو سامراجی ریاستوں …بھارت اور پاکستان کاجنم ھوا.. دنیا دو بلاکس…امریکہ.. اور …روس میں بٹ گئی…بھارت نے روس اور پاکستان نے امریکہ کے بلاک میں پناہ لی… 1947 کی تقسیم کے نتجے میں..ریاست جموں کشمیر ..اپنوں کی ناعاقبت اندیشوں اور غیروں کی چالوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ھو گئی..جس کے باعث جہاں 1947 سےلے کر آج 2022 تک ایک طرف بھارت اور پاکستان کے حکمران اپنے کشمیر سہولت کاروں اور آلہ کاروں کے ساتھ ملکر ریاستی وسائل لوٹ رھے ھیں وہاں وہاں بین الاقوامی سامراج خطے میں اپنےآلہ کاروں کے ذریعے ..اسلحہ .. بیچ رہا ھے جس کی وجہ سے جہاں منقسم ریاست جموں کشمیر کی عوام ظلم جبر غربت اور قتل و غارت کا شکار ھے وہاں بھارت اور پاکستان کے کروڑوں انسان بھی غربت .. جہالت.. افلاس.. اور دہشت گردی کا شکار ھیں. اپنی مظلوم ومحکوم قوم کو بھارت اور پاکستان کی غلامی کی دلدل سے نکال کر ایک جدید فلاحی ریاست بنانے کے لیے موجودہ قومی تحریک آذادی کے بانی مقبول بٹ شیہد نے تختہ دار پر لٹک کر نہ صرف آنے والی نسلوں کو قومی آذادی کا راستہ دکھایا بلکہ .. جدید ریاست.. کا تصور بھی دیا.جس کی بنیاد عدل .. مساوات.. باہمی بھائی چارے اور غیر طبقاتی انسان دوست سماج کی تشکیل پر ھو گی.. مقبول بٹ شیہد کی پوری زندگی (1938…. 1984) اگر مطالعہ کیاجاے تو اپنے سکول کے زمانے میں مہاراجہ حکومت کے ظلم ناانصافی اور شخصی راج کے خلاف بغاوت سے لیکر…گنگا ہائی جیکنگ… شاھی قلعہ (لاہور )..دھلائی کیمپ (مظفرآباد).. سرینگر جیل…سے لیکر تہاڑ جیل دھلی میں پھانسی کے پھندے تک .. جدوجہد مزاحمت کاری جرت بہادری اور قربانی کی ایک طویل تاریخ ھے جو نہ صرف کشمیری قوم بلکہ تمام مظلوم و محکوم اقوام کےلیے ایک نصاب اور روڑ میپ کی جثیت رکھتی ھے.. مقبول بٹ شیہد کے جدید ریاست کے تصورات انکی تاریخی جدوجہد قربانی اور افکار سے عیاں ھیں . 1..میں نے غلامی .. استحصال.. کرپشن .. ظلم مکاری اور دولت پسندی کے خلاف بغاوت کی ھے اگر پاکستان کا حکمران طبقہ جو سامراجی نظام کی پیداوار ھے جس کی نمائندگی فوجی اور سول افسر شاھی کرتی ھے اس کو سازش کہتا ھے تو مجھے اس کو تسلیم کرنے میں کوئی گریز نہیں ھے (پاکستان کی خصوصی عدالت لاہور میں بیان) 2… میں بہت بڑا کامیاب انسان ھونے کا دعوی نہیں کرتا لیکن حصول منزل کی خاطر آنے والی رکاوٹوں کو ناکامی نہیں سمجھتا اگر ایسا ھوتا تو حضرت عیسی اور کارل مارکس کا شمار دنیا کے سب سے ناکامیاب شخصیات میں ھوتا ..(تہاڑ جیل دھلی میں انٹرویو ) 3. ..میں ظلم جبر ..فرسودگی جہالت ناانصافی اور دولت پسندی کے خلاف بغاوت کا مرتکب ھوا ھوں( عدالت میں بیان) 4… ہر وہ جماعت ہر وہ ملک ہر وہ فوج ہماری دشمن ھے جو ہماری
آذادی کی دشمن ھے(مقبول بٹ شیہد کا 1974 میں میرپور میں جلسہ سے خطاب ) 5…مظلوم چاہے کسی بھی رنگ نسل اور مذہب سےھو ہم اس کے حامی
ھیں ظالم کسی بھی قوم نسل اور مذہب سے ھو تو …