اے قلب شناسا ماتم کر اے چشم بینا سوگ منا
جو روشنی بانٹنے آیا تھا وہ چاند وہ سورج ڈوب گیا
باغیرت اقوام کی تاریخ میں نڈر،باکردار ،بے داغ کردار کی مالک ایسی شخصیت ضرور ہوتی ہے جو اپنی قوم کے حقوق کا دفاع کرتے کرتے اپنی جان قربان کردیتے ہیں۔قومیں ایسے بہادروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھتی ہیں ۔تاریخ اپنے وفاداروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے اور تاریخ اپنے غداروں کو بھی معاف نہیں کرتی ۔انسانیت ،وطن سے محبت ایک ایسی خوبی ہے جو اللہ کسی کسی کو عطا کرتا ہے اس عظیم مقصد کے لیے کوئی خاص چنا جاتا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن پر قربان کردیتا ہے
ریاست جموں و کشمیر جس کی تاریخ بہت قدیم ہے یہ ریاست بھی اپنے وفاداروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی
قائرین کرام !!
جب بھی ریاست جموں و کشمیر کا نام آئے گا شہید کشمیر مقبول بٹ کا نام تاریخ میں یاد کیا جائے گا کیونکہ ریاست کے لوگوں میں خودمختاری کا بیج بونے والے بٹ شہید ہی تھے جو اپنے وطن کی بقاء کے لئے شہادت جیسے مرتبے پر فائز ہوئے
آج میںں زکر کررہی ہوں ریاست کی اس توانا آواز کا جنہیں بٹ شہید کا دائیاں بازو کہا جاتا ہے ۔سپریم ہیڈ و بانی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ امان اللہ خان مرحوم ایک ایسی عہد ساز شخصیت تھے جن کا نام آج بھی تاریخ کے سنہرے اوراق میں موجود ہے جب بھی داستان وفا لکھی جائے گی امان اللہ خان کا نام بٹ شہید کے ساتھ لکھا جائے گا
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ ریاست کی واحد نمائندہ جماعت ہے جو آر پار ریاستی بحالی کی بات کررہی ہے امان اللہ خان مرحوم کی قربانیاں اور انکی جلائی شمع آج بھی روشن ہے
امان اللہ خان صاحب پر بہت لکھا جاچکا ہے نامور مصنف محترم سعید اسد صاحب نے بھی قائد تحریک پر بہت لکھا ۔امان اللہ خان کی زندگی اور انکی کوششیں جو انہوں نے ریاست کے لیے کی انکے بارے میں کچھ یاداشتیں گوش گزار ہیں
امان اللہ خان 24 اگست 1931 کو پیدا ہوئے انکے آباؤ اجداد کا تعلق گلگت سے تھا ۔بغاوت اس خطے کے لوگوں کے خون میں شامل تھی ۔کہتے ہیں انقلابیوں کی آنکھوں میں انقلاب صاف نظر آتا ہے سکول دور سے ہی انقلاب کی ایک لہر ان کی آنکھوں میں دیکھی گئی تھی سکول کی طلبہ یونین کے سیکرٹری جنرل بھی منتخب ہوئے ۔سکول جانے کے لیے کئی میل پیدل سفر کرنا پڑتا تھا اور بالآخر کالج تک پہنچ گئے ۔ پشاور کالج میں زیر تعلیم رہے انہوں نے گلگتی طلباء سے مل کر گلگت سٹوڈنٹ فیڈریشن قائم کی جو گلگتی طلباء کی پہلی تنظیم تھی ۔بعد ازاں کراچی چلے گئے کراچی خودکفیل طلباء کے لئے ماں باپ کا سا کردار ادا کرتا ہے ۔کراچی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا ۔انہوں نے پہلی باضابطہ ملازمت 1953میں محکمہ مردم شماری میں اختیار کی جو صرف 6 ماہ تک قائم رہی ۔اسکے بعد انہوں نے نائٹ سکول میں تدریس شروع کی ۔رات کو سونے کے بعد اسی کمرے میں صبح سکول قائم کر لیا اس ایک کمرے سے شروع کیا جانے والا سکول امان اللہ خان کی محنت سے کراچی کے مشہور سکولوں میں سے ایک سکول بن گیا ۔باضابطہ طور پر سیاست کا آغاز کیا اور امیدوار خواجہ غلام نبی گلگار کی حمایت کی ۔اسکے بعد کراچی میں موجود ساتھیوں سے مل کر محاز رائے شماری کا آغاز کیا ۔جس کے بانی عبد الحق ایڈوکیٹ تھے اور سیکرٹری جنرل امان اللہ خان تھے ۔اگست 1965 میں محاز رائے شماری کا ایک عسکری ونگ NLF قائم کیا گیا جس کا مقصد تحریک آزادی کشمیر کو منظم کرنا تھا یہ ونگ امان اللہ خان ،مقبول بٹ اور جی ایم کون نے منظم کیا ۔
1970 میں ہفتہ گلگت بلتستان کے سلسلے میں محاز رائے شماری کے قائدین نے گلگت جا کر وہاں کے لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجھد شروع کی ۔محاز کے ان رہنمائوں کو گرفتار کر کے گلگت بدر کیا گیا ۔1971 کو محاز رائے شماری سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان اشرف قریشی اور ہاشم قریشی نے گنگا طیارہ اغواء کیا جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر عالمی فورم پر روشناس ہوا اس دوران امان اللہ خان نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں لایا ۔امان اللہ خان اور انکے ساتھیوں کی کوششوں سے لبریشن فرنٹ کی شاخیں یورپ کے کہیں ممالک میں قائم ہوئی ۔3 فروری 1984 بھارت میں قید محاز رائے شماری کے رہنماء مقبول بٹ کو رہا کروانے کے لیے ایک بھارتی سفارتکار مہاترے کو اغواء کیا گیا جس کے پیچھے امان اللہ خان کی مکمل حکمت عملی شامل تھی ۔5 فروری کو برطانوی حکومت نے امان اللہ خان کو گرفتار کیا امان اللہ خان نے چار مرتبہ لائن آف کنٹرول توڑنے کی کال دی 1992 کو چکوٹھی کی جانب سے سیزر فائر لائن توڑنے کی کال دی عوام کی اکثریت نے شرکت کی ۔ریاست جموں و کشمیر کے لیے امان اللہ خان کی قربانیاں بے شمار ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کے ریاست جموں و کشمیر کی بقاء میں نظریہ خودمختار کشمیر کے قیام کے لیے امان اللہ خان کی غیر متزلزل جدوجھد ہی ہے آج تک یہ نظریہ عوام کے دلوں میں باقی ہے انہوں نے نہایت تنگ دستی میں اپنی جدوجھد جاری رکھی ۔اور 26 اپریل 2016 کو اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے
امان اللہ خان کا فرمان ہے
میں اپنے پاکستانی بھائیوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں پاکستان نے کشمیر کے بارے میں بہت سے مواقع ضائع کیے ہیں 1948 میں بھارت کے نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر پاکستان ریاست جونا گڑھ اور حیدر آباد سے دستبردار ہو جائے تو بھارت ریاست جموں و کشمیر سے دستبردار ہو جائے گا لیکن حکومت پاکستان نے اس کو مسترد کر دیا پاکستانی حکمرانوں سے کہنا چاہوں گا ریاست جموں و کشمیر پر دو ٹوک موقف دے کر عوامی کنفیوژن کو حل کیا جائے "