یہ جتنی کہانی وسعت اللہ خان صاحب نے لکھی ہے اس سے پہلے کی بات بھی اس کے ساتھ شامل کرنا چا ہئیے تھی ۔ یعنی کہ اس “واردات “کے تانے بانے جموں کشمیر ریاست پر اس حملے سے جڑے ہیں جس کے نتیجے میں ساؤتھ ایشا کی متمول ترین ریاست پر مسلم لیگ کے “تب کے واردتیوں “نے حملہ کر کے ریاست کو تقسیم کر دیا تھا لیگ والوں نےاپنے قائد اعظم محمد علی جناح کے مہاراجہ کشمیر سے “معاہدہ جاریہ” سٹینڈ سٹل اگریمنٹ کے باوجود نہ صرف مہاراجہ کی ریاست پر حملہ کیا بلکہ معاہدے کے تحت جس ریل لائن کو بحال رکھنا تھا سیالکوٹ سے اسے بھی بند کردیا تھا ۔ اور پھر مہاراجہ کو اتنا مجبور کردیا گیا اس نے نومبر میں جموں “دربار “ یعنی اپنے سیکرٹریٹ کی منتقلی کو اکتوبر میں کر دیا جہاں تب کی بھارت سرکارنے “سول ان ریسٹ “ کو قابو کرنے کے لئے نوزائیدہ ڈومینینز کے مشترکہ فوجی کمانڈر جنرل گریسی کے ماتحت فوج کو پایا تخت “ویلی “ یعنی سری نگر میں اتارا تب جاکر مذھب کے نام پر لوٹ مار کرنے والے واپس بھاگے ۔ جہاں جہاں تک تب کی فوج پہنچی وہان وہاں پر بھارت کی شکایت پر یواین نے پاکستان کو سیز فائر کا حکم دے کر مشروط رائے شماری کا فیصلہ کیا ۔ یاد رکھیں اس وقت میں جن جن لوگوں نے لیگ کے وارداتیا گروپ کو مہاراجہ کے خلاف نام نہاد مذھبی جنگ کے نام پر سہولت کاری فراہم کی تھی ان کو اس وفاداری کی پاداش میں یہاں پر حکمران کیا گیا ماسوا چند ایک کے جن وہ ایک واحد شخص بھی شامل ہے جس کا تذکرہ خود وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے مضمون میں کر رکھا ہے ، تقریبا سب ہی اپنے وطن پر دوسروں کی دسترس کے حامی رہے بلکہ یوں کہنا چا ہیئے کہ وہ ماں دھرتی کو دوسروں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے رہے وہی لوگ انہیں ناجائز تعلقات کے قائم کروانے کا عوضانہ وصول کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں علامتی طور پر تو یہ ریاست کی نمائندہ حکومت کا دعوی کر نے کے مجاز ضرور ہیں لیکن عملا یہ علاقے میں موجود پاکستانی سرکاری کے معمولی سے معمو لی اہلکار کے سامنے بھی سجدہ ریز نظر آتے ہیں حالیہ انتخابات میں ایک اہلکار کو کروڑوں رشوت کے عوض سہولت کاری کے اعلی عہدہ کا وعدہ اور پھر راز افشا ہونے کے بعد اس اہلکار کی بدلی اس کا تازہ ثبوت ہے لہذا وسعت اللہ خان صاحب سے استدعا ہیکہ اپنے “منجھے تھلے بھی ڈانگ پھیرنے “کا ایک کالم ضرور لکھیں اور دھرتی ماں کے غیر سے ناجائز تعلقات کے گناہگار ،سہولت کار وارداتیا گروپ کی کارستانیوں کو بنیاد بنا کر خطے میں علامتی طور قائم آزاد حکومت کو بے تو قیر نہ فرمایا جائے ۔
اپنے ہم وطن ریاستی بھائیوں سے استدعا ہیکہ خدرا یہاں جاری بے حسی و بے حمیتی کے کھیل سے متنفر ہوکر اپنی ریاست کی علامت کو بے توقیر نہ کریں اغیار نے پانچ اگست کے بعد نیا ٹارگٹ تمہاری حیثیت کو ختم کرنے طے کر رکھا ہے گلگت بلتستان پر وہ پہلے سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے واردات کر چکے ہیں ۔ اگر چہ پنڈی کے کمشنر کے ماتحت آزاد حکومت کا قیام بھی متنازعہ ہی سمجھا جاتارہا ہے لیکن پچہتر سال گزر جانے کے بعد اب اس کا پرچم اس کا متنازعہ ترانہ اور خطے کا ریاست نما سیٹ اپ بنانے والوں نے جن مذموم عزائم کی خاطر کیا تھا اس کو مسترد کرتے ہوئے اس سیٹ اپ کو ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کی ری یونین کی جانب پہلے قدم کے طورپر استعمال کریں اور آزادحکومت کے زیر نگیں خطہ اور گلگت بلتستان کو ذہنی غلاموں نجات دلا کر قومی آزادی کا راستہ اپنائیں اور عہد کریں کہ ہم نہ تو اپنی دھرتی ماں کا کسی سے سودا کریں گے نہ ماں کے خلاف غیر کا آلہ کار بنیں گے نہ ہی اپنی ماں کے کسی بیٹے کو قتل کریں گے نہ اپنے کسی ماجائےکت خلاف کسی گا آلہ کار بنیں گے