سودی معیشت کا محافظ سٹیٹ بینک آف پاکستان
تحریر ڈاکٹر ضمیر اختر خان
یہ رمضان المبارک 1443ھ کی 27 تاریخ تھی جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سود
کے خلاف ایک تاریخ ساز فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلہ تک پہنچنے میں 19 سال لگے۔ یہ مقدمہ سود کے بارے میں
تھا۔ اس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک سے اس "معاشی ام
الخبائث”(سود) کو ختم کرنے کے احکام صادر کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہ عظیم کام
کرلیا جاتا اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ (Authority Supreme The (کا حکم ہے۔ اس حقیقت کو بانی پاکستان بخوبی
سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے "بینک دولت پاکستان” کو حکم دیا تھا کہ وہ جلد از جلد”مساوات اور معاشرتی
انصاف کے حقیقی اسلامی تصورپر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرے”۔ قائد اعظم کے حکم کی کتنی
پاس داری کی گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ بانی پاکستان کا حکم تو رہا ایک طرف اب اس سب سے بڑے بینک نے
جواسلامی جمہوریہ پاکستان کا مرکزی بینک ہے ،سودی معیشت کی حفاظت اورسرپرستی کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس
کے پیچھے اصلاً تو حکومتی ہاتھ ہے۔ اس لیے کہ یہ ان شریفوں کی ہی حکومت تھی جس نے یو بی ایل کے ذریعے
اکتوبر 1991ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا اور سات سال تک اس فیصلے کی راہ میں
رکاوٹ ڈالے رکھی۔ بعد ازاں شریعت ایپیلیٹ بینچ کے فیصلے کے ساتھ بھی یہی حشر کیا گیا اور یوں حالیہ فیصلے
تک پہنچتے ہوئے 30 سال کا عرصہ بیت گیا اور اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم کے خلاف جنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ اپنے اسی
کبیرہ گناہ کی پاداش میں شریفوں کو ذلیل و خوار بھی ہونا پڑا مگر یہ اپنی روش سے باز نہیں آئے۔ انہوں نے ایک
مرد درویش ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ملک کو سود سے پاک کریں گے لیکن یہ وعدہ وفا نہ
کر سکے۔ اب دوبارہ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سرد خانہ میں ڈالنے کا پروگرام بنایا ہے اور اس
کے لیے انہوں نے سٹیٹ بینک کو آلہ کار بنایا ہے۔ سٹیٹ بینک کی وفاداری چونکہ عالمی اداروں کے ساتھ ہے، اس لیے
اس کو آگے کیا گیا ہے۔ اس کے یہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اس نے دھیرے دھیرے خود مختاری حاصل کی
ہے۔پہلی بار بے نظیر حکومت نے اسے ریاست پاکستان سے آزاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جنوری 1997 ء میں ملک
معراج خالد کی نگراں حکومت نے اس کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار کر دیا۔ اب یہ حکومت ِ پاکستان کے
ماتحت نہیں رہا تھا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ تھا ، تاہم ابھی بھی اس کے گورنر کی تعیناتی وفاقی
حکومت کے حکم سے کی جاتی ہے۔قرائن بتا رہے ہیں کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے پیچھے اصل جذبہ محرکہ
سودی معیشت کوبرقرار رکھنا ہے۔ اس بینک کی تاریخ بتا رہی ہے کہ یہ دراصل پاکستان میں آئی ایم ایف اور
ورلڈبینک کانمائندہ ادارہ ہے۔ اس کے گورنرزبالعموم انہی دونوں عالمی اداروں کے ملازم ہی رہے ہیں۔ یہ بھی
ریکارڈ پر ہے کہ یہ "اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہی ہے جس کے گورنر ہر سال وزیر خزانہ کے ہمراہ آئی ایم
ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جاتے ہیں”۔ حال ہی میں اس نے
دمختاری بھی حاصل کی ہے ۔ اس ضمن میں ایک ترمیمی بل پاس ہو چکا ہے ۔ شنید ہے کہ یہ بل
آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت منظور کیا گیا ہے۔ یہ بل سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروس کارپوریشن
آرڈیننس2021 ترمیمی بل کہلاتا ہے۔ اس کے تحت ان امور کو کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنیٰ دیا
گیا ہے جو ’نیک نیتی’ سے کیے گئے ہوں۔یہ قانون شرح نمو کے بجائے مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے
اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دیتا ہے کیونکہ جولائی 2019 کو پاکستان نے جس آئی ایم ایف پروگرام پر
رضامندی ظاہر کی تھی اس کے تحت یہ عمل لازمی قرار دیا گیا تھا۔
اب ذرا سٹیٹ بینک کی اس اپیل کا جائزہ لیتے ہیں جو اس نے دیگر بینکوں کو ساتھ ملا کر وفاقی شرعی
عدالت کے سود کے خلاف حالیہ فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔ اس اپیل میں ایک
مغالطہ پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ دستورکی دفعہ 203)F (کا سہارا لیا
گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ "وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے، حکم قطعی یا سزا کے خلاف کوئی
اپیل عدالت عظمیٰ میں قابل سماعت ہوگی”جبکہ اسی دستور کی دفعہ 203)الف) یہ کہہ رہی ہے
کہ”وفاقی شرعی عدالت کے احکام دستور کے دیگر احکام پر غالب ہوں گے”۔ وفاقی شرعی عدالت نے
جہاں قرآن و سنت کے واضح احکام کی روشنی میں اور مفصل دلائل وبراہین کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے
وہاں پر دستور پاکستان کی دفعہ 38)ایف) کا بھی حوالہ دیا ہے۔اس اپیل میں وفاقی شرعی عدالت کے
دائرہ اختیار پر پھر سوال اٹھایا گیا ہے جس پر پہلے ہی بحث مکمل ہو چکی ہے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ
وفاقی شرعی عدالت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص کی ضامن ہے اور دستور کی دفعہ
227 کی رو سے ملک میں رائج کسی بھی قانون کو ختم کرنے کا فیصلہ دے سکتی ہے جیسا کہ موجودہ
فیصلے میں سود کو اسلام کے صریح احکام کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایسے تمام قوانین کو ختم کرنے
کاحکم دیا گیا ہے جو سودی معیشت کو تحفظ دینے والے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت
دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسلام کے احکام کو مان کر اور ان پر عمل کر کے اللہ
ورسول صلى الله عليه وسلم سے برپا کی ہوئی جنگ کوختم کر کے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں یا پھر اللہ و رسول کے
خلاف بغاوت کر کے کسی بڑے سانحے کے لیے تیار ہوں۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
سٹیٹ بینک نے ایک اور مغالطہ بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو
سود سے پاک کرنا اس کا مینڈیٹ ہے اور اس ضمن میں اس نے کچھ پیش رفت کی بھی ہے۔ اگر سٹیٹ
بینک موجودہ اسلامی بینکاری کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں سٹیٹ
بینک کا ریاستی بینک ہونے کے ناطے صرف سرپرست کا کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کردار
نہیں ہے۔ بلکہ اس نے تو اسلامی بینکاری کے حوالے سے اس ابتدائی کام میں بھی رکاوٹیں ہی ڈالی ہیں۔
اس کے تحقیقی ادارے نے آج تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب شاکی ہیں کہ انہوں نے جو روڈمیپ سود سے پاک بینکاری کا دیا تھا اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔اغلباً اس میں
بڑی رکاوٹ حکومتی اشیرباد سے سٹیٹ بینک ہی ہے۔
آخر میں ہم حکومتی اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے ارکان پارلیمنٹ سے
گزارش کریں گے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کی تنفیذ کے لیے مہم
چلائیں اور ان قوانین کو جو شریعت سے متصادم ہیں ختم کرنے کی سعی کریں ۔ اس وقت عوام میں
بیداری آرہی ہے اور یہ سننے میں آیا ہے کہ لوگ نجی بینکوں سے اپنے کھاتے ختم کر رہے ہیں۔ کچھ بڑے
سرمایہ داروں اور تاجروں کی طرف سے بھی پیش قدمی ہوئی ہے۔ ایسے میں حکومت پر دباؤ ڈالا جائے
کہ وہ سود جیسے حرام مطلق کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایک بڑا کام یہ کرنا ہے کہ دستور کے
اندر بعض دفعات میں باہمی تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کو بھی ختم کرنے کے لیے ترمیمی بل تیار کیا جائے۔
یادش بخیر ! تنظیم اسلامی نے دستوری تضادات کو ختم کرنے کے لیے ایک ترمیمی بل ماہرین قانون کے
تعاون سے 2007ء میں تیار کیا تھا۔ اگر جمیعت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی
جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ ہمت کریں تو تنظیم اسلامی کے مرکز” دارالاسلام "ملتان روڈ چوہنگ لاہور
سے رابطہ کریں۔فون-042-35473375
فی الوقت تمام مکاتب فکر کے علماء اور دینی جماعتوں کو ان بینکوں کی شرارت کی کھل کر مخالفت کرنی
چاہیے ۔
اصل ضرورت اس امر کی ہے اور اس کا دیر پا اور مستقل حل تو یہ ہے کہ اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچایا
جائے وہ اس طرح کہ 31 علماء کے 22 نکات کی تنفیذ کا مطالبہ کیا جائے اور شریعت کے تمام قوانین کی تنفیذکے
لیے اور نظام مصطفیٰصلى الله عليه وسلم کے سنہری اصولوں کے نفاذ کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلائی جائے۔ موجودہ سیاسی
نظام مکمل طور پرناکام ہو چکا ہے۔اس سال رمضان المبارک کی پرنور ساعتوں میں ہمارے ملک کی جو سیاسی
فضا بنی رہی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرابی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس ملک میں کوئی
نظام نہیں ہے۔ سیاست دان اتنے کرپٹ ہیں کہ اب انہیں ان خباثتوں کے ساتھ قوم قبول کر رہی ہے جو تباہی کو
دعوت دینا ہے۔ یاد رکھیے ! اس ملک میں سوائے اسلام کے اور کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس لیے جتنی تاخیر ہو گی
ملک خطرات سے دوچار رہے گا اور اندیشہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے نہ ہو جائیں ۔ ہمیں جوڑنے والی واحد طاقت
دین اسلام ہے اور اس سے پہلو تہی کے بڑے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سود
کی حرمت کے حوالے سے ابہام پیداکرنا سٹیٹ بینک کی انتظامیہ کی وہ جسارت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب
آسکتا ہے۔ اس ملک سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ سٹیٹ بینک اپنی اپیل واپس لے اور اس کے گورنر اللہ کے حضور توبہ
کریں اور پوری قوم سے معافی مانگیں کیونکہ انہوں نے 22کروڑ مسلمانوں کے دینی جذبات کو ٹھیس پہچائی ہے۔