از قلم: بینش احمد اٹک
اگست بارشوں کے ساتھ یادوں کی آندھیاں بھی لیکر آتا ہے ۔یادیں آنسوئوں کی برسات لاتی ہیں۔ میں پھر مال گاڑی کے اس کھلے ڈبے میں پہنچ جاتی ہوں جہاں چلچلاتی دھوپ میں، میں اور میری دوست ذلیخہ ایک کونے میں سہم کر بیٹھے تھے۔ ہماری منزل اپنا نیا وطن تھی- اِس سفر میں ہم نے بہت کچھ کھویا تھا-
مہاجر کیمپ میں ہر طرف چیخ وپکار تھی- کوئی اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے پر رو رہا تھا تو کوئی بیماری کی تکلیف کے باعث رو رہا تھا- میری دوست ذلیخہ کی حالت بہت خراب تھی-ذلیخہ ایک ڈاکٹر تھی لیکن خود سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا تھی اور ساتھ ہی بازو پہ تلوار کا گھاؤ بھی برداشت کر رہی تھی-
” اماں میں٬ میں مر جاؤں گا مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے کچھ کر اماں-“یہ آواز ایک سترہ سالہ لڑکے کی تھی جس کے پاؤں میں گولی لگی ہوئی تھی – وہ تکلیف کے مارے زور زور سے چیخ ریا تھا – اُس کی ماں بے چاری اپنے بچے کو ایسی حالت میں دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی-
ایک دم زلیخہ اپنی حالت کی پرواہ کیے بغیر اُس کی طرف لپکی- لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اُس کے پاس کوئی اوزار ہی نہیں تھے کہ وہ اُس لڑکے کا علاج کرتی-
وہ بہت مشکلوں سے پورے کیمپ میں گھومنے کے بعد وہ چند اوزار تلاشنے میں کامیاب رہی جو گولی نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتے تھے- زلیخہ اپنی کوشش میں کامیاب رہی-اُس نے گولی نکال دی اور اُس لڑکے کی پٹی وغیرہ کر دی-اِس دوران زُلیخہ کی اپنی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی-
کیمپ میں علاج کی سہولیات بہت کم تھیں اور ایسے حالات میں سرطان جیسے موذی مرض کی ادویات میسر ہونا تو نا ممکن تھا- پورے کیمپ میں وبائی امراض نے دھاوا بول دیا تھا – کیمپ میں ذیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی- جو لوگ زندہ سلامت پاکستان پہنچ گئے تھے وہ بھی بے حد زخمی تھے- روزانہ سینکڑوں اموات ہو رہی تھیں -بہت سوں کے جسم پر تلواروں کے زخم تھے- اور بہت سوں کی صحت کھانا نا ملنے اور فاقوں کی وجہ سے خراب ہو گئی تھی-
ایک عورت خون میں لت پت بیٹھی تھی- اُس کی گود میں ایک ننھا بچہ تھا- اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہی چلے جا رہے تھے – زلیخہ اُس کے پاس گئی-
”بہن کیا تکلیف ہے مجھے بتاؤ -“زلیخہ اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی-” میں درد سے مر رہی ہوں میرا جسم جل رہا ہے- “وہ عورت اپنی کمر سے چادر ہٹاتے ہوئے بولی- زلیخہ نے دیکھا اُس کی کمر زخموں سے چُور تھی- جگہ جگہ تلوار کے گاؤ تھے- زلیخہ اُس کے زخم دیکھ کر اپنی تکلیف بھول گئی تھی- اُس نے زخموں پر مرہم لگایا اور اچھی طرح پٹی کردی-
زلیخہ کی اپنی تکلیف اب نا قابل برداشت ہو چُکی تھی وہ زمین پہ لیٹی تھی اور درد کے مارے کراہ رہی تھی- میں ہر طرف بھاگی لیکن زلیخہ کے لئے کچھ نا کر سکی- وہ میرے ہاتھوں میں دَم توڑ گئی- آج بھی زلیخہ کی صورت میرے ذہن سے نہیں نکلتی-وہ پیاری لڑکی دُنیا سے جاتے جاتے بھی اپنا فرض ادا کرنا نا بھُولی- اُس نےاپنی بیماری کی کوئی پرواہ نا کی اور بہت سوں کا علاج کیا- زلیخہ جیسے لوگ جن کا تاریخ کے صفحات پر کوئی نام نہیں ہے لیکن وہ اِس ملک کی تعمیر میں اپنا بہت اہم کردار ادا کر گئی ہے-