اے بکھّاں۔۔اے بکھّاں۔۔۔اُٹھ..اُٹھ جا کوئی اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا تھا۔ اُس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔ اسکا گھر والا شریف دین اس کے سر پر کھڑا تھا ”بس اٹھنے لگی ہوں‘‘ بکھاں نے سستی سے کروٹ لیتے ہوے کہا’’ چھیتی کر۔۔۔مجھے چلم گرم کر کے دے‘‘ وہ اپنی دھوتی سنبھالتے ہوے چارپائی پر جا بیٹھا..گہری نیند سے جاگنے کے بعد بکھاں کے اعضاء سن ہو رہے تھے جسکی وجہ سے اس سے ہلا نہیں جا رہا تھا مگر اٹھنا ضروری تھا ورنہ شامت آجاتی. وہ اٹھی اور چارپائی پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی. پاس ہی اسکے دونوں
بچے سو رہے تھے.وہ انھیں جگانے کے لیے آوازیں دینے لگی. ”سونے دے میرے پُتّروں کو”. شریف کی کھردری آواز گونجتے ہی وہ چپ ہو گئی اور کپڑے جھاڑتے ہوےسست رفتاری سے نلکے کی طرف چل دی. مشرق کی طرف سے پھوٹنے والی لالی اس کے گھر کی نیچی اور کچی دیوار پھلانگ کر اس کے ویڑے میں پھیل رہی تھی . ویڑے میں لگے نیم کے قد آور پیڑ وں پر چڑیوں نے شور مچا رکھا تھا.جب وہ منہ ہاتھ دھو رہی تھی تو آپس میں گتھم گتھا دو چڑیاں اسکے سامنے آ گریں. ”لَےدسّ . کِنج لڑ رہاں . انہاں نےآپس میں بھلا مربّے ونڈنے ہیں؟ ..جھلیاں نہ ہوں تو”.. وہ ہنسی اور ہاتھ مار کے ان کو اڑانے لگی. بدبختے چھیتی ہل. .ہڈیوں میں پیپ ہے تیرے؟”. شریف کی غراتی ہوئی آواز نے اسکا پیچھا کیا تو اس کے بدن میں جیسے بجلی دوڑ گئی.لکڑیوں اور اُپلوں سے چولہے میں آگ سلگھانے کے بعد اس نے شریف کے لیے بڑے سے چینی کے پیالے میں دہی نکالا .باقی دہی چاٹی میں ڈال کر مدھانی سے مکھن نکالنے لگی. شریف نے دہی کا پیالہ چڑھایا ،کچھ دیر حقہ گڑگڑایا اور بیل گاڑی جوتنے لگا. دونوں کاکے اٹھے اور حسب معمول کچھ کھائے پیے بغیر باپ کے پیچھے بھاگ گئے. ظہر کی اذان سے کچھ دیر پہلےتک وہ مال ڈنگروں سمیت سب ضروری کام نبٹا چکی تھی . کمرے میں آنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیتے ہوئےوہ بالوں میں کنگھی پھیرنے لگی.اسکا رنگ گورا ،آنکھیں درمیانی اور ماتھا چوڑا تھا.اس وقت اسکی عمر بمشکل اکیس برس تھی مگر اسکے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی. دیوارپہ ٹنگےدھندلے سےآیئنےاس نے غور سے خود کو یکھا.آنکھوں کے کناروں پر ہلکی ہلکی سلوٹیں نمودار رہی تھیں.بکھّاں نے جب اپنے دوپٹے کے پلو سے انکو صا ف کرنے کی کوشش کی تو وہ اور نمایاں ہو گیئں. اس
نے اداسی سے ٹھنڈی آہ بھری اور بازار میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ کھول کر بیٹھ گئی. .اکیس برس کی عمر میں ہی وہ عورت لگنے لگی تھی.ایسا ہونا تو بہت پہلے طے ہوگیا تھا جب محض پندرہ وروں کی عمر میں اسکی شادی کر دی گئی تھی.چھ بہنوں میں سے وہ سب سے بڑی تھی.اپنے میاں جی کی لاڈلی تھی.اسکے میاں جی امام مسجد تھے اور بڑے پرہیز گار تھے. وہ اکثرانگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے.چیزیں دلاتے.اسکا ماتھا چومتے.لیکن لگاتاراوپر تلے لڑکیوں کی پیدائش کے بعد وہ بھی کچھ بدل سے گئے تھے.اکثر باہر رہتے اور
رات کو دیر سے گھر لوٹتے .جسکا نتیجہ یہ نکلا کی بی بی سارا دن اسے ڈانٹتیں.اسکی چھوٹی بینوں کو بے وجہ مارتیں.البتہ گھر کی بھاری بھر کم ذمہ داریاں سبھاتلنے کی وجہ سے وہ مار سے بچی رہتی .انکے خاندان میں مرد سفید کلف زدہ بڑے کُلّے والی پگڑیاں باندھتے تھے جسکی وجہ سے خاندان ”کُلّے والا” کہلاتا. عمرکے چودویں سال اچانک جب اس نے قد نکالا تو بی بی جان کوہول اٹھنے لگے.لہذا دور کا اک بھتیجا ڈھونڈ کر اسکی شادی کر دی گئی.ویسے بھی سفر کھٹن تھا.چھ پہاڑ عبور کرنے تھے(اگر چہ چھٹا پہاڑ ابھی شیرخوار تھا) اس لیے
اسکے والدین اپنے اس فعل میں حق بجانب تھے. یہ شادی بے جوڑ تھی،اسکا گھر والا پستہ قد کا بدمزاج اور ادھیڑ عمرآدمی تھا.سُلفے کی لاٹ جیسی کم عمر بیوی پانے کے بعد وہ اندر ہی اندر خود کو کم تراور غیر محفوظ محسوس کرنے لگا.جس کا نتیجہ شک،سختی اور درشتگی کی صورت میں نکلا.وہ بے جا بکھّاں کو دبانے کی کوشش کرتا، بد زبانی کرتا اور ہاتھ اٹھاتا.کچے ذہن کی بے بس لڑکی سب ہسی کے سہہ لیتی کیونکہ رخصتی کے وقت بی بی جان نے اسے کہا تھا کہ ہم تیرا جتنا اچھا کر سکتے تھے کر دیا.دھیے گزارا کرنا ہے کیوں کہ تیرے پیچھے
آنے والا کوئی نہیں.تیری بہنوں کے مستقبل کے لیے تیرا گھر وسّنا بہت ضروری ہے. تووسّ کے دکھائیں.جو وی ہوے چپ کر کے سہہ لئیں، سی نہ کریں.وہ اس بات کا مطلب بخوبی سمجھتی تھی چنانچہ اسے قسمت سمجھ کر سمجھوتہ کر لیا.شادی کے شروع کے چند مہینے وہ گاؤں میں ہی رہے مگر پھر شریف کے اور میاں جی کے اختلافات شروع ہو گئے.میاں جی عزت دار آدمی تھے جبکہ شریف کی خصلت میں کمینہ پن تھا.وہ فطرتاً جھگڑالو تھا.گاؤں میں اکثر اسکا کسی نہ کسی کے ساتھ جھگڑا رہتا جسکا نتیجہ طور پر میاں جی کو بھگتنا پڑتا. وہ پنچایتوں
میں اس کے حصے کی معافیاں مانگتے جس کی وجہ سے انکی بہت سُبکی ہوتی.بکھاں کو بھی اس بات کا بہت ملال تھا. کیوں کہ وہ اپنے میاں جی سے بہت پیار کرتی تھی .ان کو یوں خوار ہوتے دیکھ کر اسکا دل کڑھتا.مگر وہ عملی طور پر بے بس تھی.ایک دفعہ میاں جی نے شریف کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اوراول فول بکنے لگا .یہی نہیں میاں جی کے جانے کے بعد اس نے سارا نزلہ بکھاں پر گرایا.اس رات وٹّہ گرم کر کے وہ دیر تک بدن پہ ثبت نیل سکتیا رہی . پھر قدرت کی مہربانی نے انگڑائی لی اور حکومت کی طرف سے
کسانوں کو تھل میں زرعی زمینیں الاٹ کرنے سلسلہ شروع ہوا تو شریف کو بھی قسمت آزمائی شوق چڑھ آیا اور اس نے لیّہ میں تھوڑی سے زمین اپنے نام الاٹ کرالی . بکھاں کو ماں باپ سے بچھڑنے کا غم تو تھا مگر وہ جانے کے لیے خوشی خوشی تیار ہوگئی کیونکہ ان کے گاؤں چھوڑنے سے میاں جی کا عذاب ختم ہو جاتا.اور نہیں تو کم از کم وہ انکی نظروں سے اوجھل ہو جاتی.نہ وہ اسے پستا ہوا دیکھتے اور نہ انہیں ایذا ملتی..کتنی سادہ سی بات تھی.چنانچہ وہ اپنے دو کاکوں کے ساتھ لیّہ کے نواہی گاؤں میں منتقل ہو گئے. پچھلے چار برسوں کے دوران
اسے کوئی ملنے نہ آیاتھا.آتا بھی کیسے؟ اتنی دور آنے کی سکت کس میں تھی. بکھاں کو کوئی گلہ بھی نہ تھا. لیکن میکے کی جو کھینچ تھی اسکے دل میں وہ اسے ختم نہ کر سکی. اس کے من میں ایک پھانس رہتی.اسے اپنی امبڑی، اپنی ماں جائیوں کی فکر رہتی.اسے اپنے میاں جی کا خیا ل ستاتا کہ وہ اتنی بیٹیوں کی زمہ داریوں کے بوجھ تلے کیسے زندگی بتا رہے ہوں گے؟.اسکا وجود تو لیّہ میں تھا مگر اسکی روح دور وسطی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پرواز کرتی رہتی جہاں اسکے ماں باپ اسکے پیارے بستے تھے. اچانک کھڑکی کے اُس پار
ہلچل مچی تو بکھّاں کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا. سورج اپنی منزلیں طے کرتا ہوا مغرب میں اتر رہا تھا.جسکی تمازت کھڑکی سے اندر پھیل رہی تھی.اس نے باہر جھانکا.کوئی تانگہ آکے رکا تھا. سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دراز قد اورباریش آدمی تانگے سے اتررہا تھا. میاں جی…..خوشی سے اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ پیلی چنری سر پہ اوڑھتے ہوئے دروازے کی طرف لپکی. میرے میاں جی….وہ تڑپ کے آگے بڑھی.میاں جی نے اسے اپنی بغل میں لے کر سر پہ ہاتھ پھرا.. ”کیسی ہے میری دھی؟ ” میاں جی نے پوچھا تو وہ پھوٹ کے رو
دی.. ”تساں مینوں بھل گئے سن میاں جی”.. ”نہ پتر تو تو میری بکھا ں ہے..میری بکھاں والی، کرماں والی دھی.اتنی دور کے پینڈے.بس انہاں نے روک رکھا.پر تیری بی بی روز لڑتی تھی مجھ سے کہ جاؤ اور میری بکھاں کی خبر لاؤ. پردیساں وچ جانے کیا کرتی ہووے گی”.. وہ چلتے چلتے نیم کے نیچے بچھی منجی تک آئے اور اسے ساتھ لگا کر بیٹھ گئے.. ”میں ہر روز اڈیکتی تھی”. بکھاں نے ٹھنک کر شکوہ کیا . آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. ” کملیئے کیوں روتی ہے. تو بوٹی ہے میرے جسم کی .تیرا میاں جی آ تو گیا ہے..شیر پتر
بن..چل مجھے کوئی لسّی پانی دے”.. وہ چونک کے اٹھی. .نئی چارپائی نکالی اس پرسفید کھیس بچھایا.حقہ تازہ کر کے ان کے پاس رکھا.ہمسائے سے تایا کو بلا کر اصیل ککڑ حلال کروا کے ہانڈی چڑھا دی..آج اس کے تلّوے زمین پر نہیں لگ رہے تھے.وہ پٹولا بنی گھوم رہی تھی.اس کی بی بی نے اس کے لیے سامان بھیجا تھا. جووہ گٹھری سے نکال کے دیکھ رہی تھی.اس کے کپڑے تھے،گڑ تھا،چاندی کی بالیاں تھیں.دیکھ دیکھ کے بچوں کی طرح اسکی قلقاریاں نکل رہی تھیں.اسی دوران شریف گھر میں داخل ہوا.اس نے چاروں طرف نظر
دوڑائی.گھر کا منظر بدلا ہوا تھا.نیلے رنگ کے نئے جوڑے میں ملبوس بکھاں اسکے سامنے آئی..”پیرو کے اباّ…میرے میاں جی آئے ہیں ”..اس نے چہکتے ہوئے اطلاع دی.مگر فطرت سے مجبور شریف کے ماتھے پر تو بل پڑ گئے تھے. ”آگیا ہے تو میں کیا کروں؟دوھڑے گاؤں؟” وہ بے زاری سے بولا اور ریڑھی سے چارہ اتارنے میں مصروف رہا.بکھاں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی.تسلی سے کام ناٹک کر شریف مہمان کے پاس آیا اور سلام کر کے حقہ پینے بیٹھ گیا.دور تندور پہ روٹیاں لگاتی بکھّاں نے اس کے تیور بھانپ لیے تھے کہ یہ کوئی
رنگ دکھائے گا آج.وہ منہ میں بڑبڑائی.ربّا خیر رکھیں اس نے گہری سانس لیتے دل میں دعا کی.مگر شائید وہ گھڑی قبولیت کی نہیں تھی.جب بکھّاں میاں جی کے سامنے کھانا لگا رہی تھی تو شریف کی دھاڑ سنائی دی” بد ذاتے وچھّا کدھر ہے”؟. وہ جو پچھلے ایک گھنٹے سے بکھاں پر برسنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھاآخر کار اسے بہانہ مل گیا تھا. اس نے سب کچھ وہیں چھوڑا اور ڈنگروں کی طرف بھاگی. وچھّا رسّہ تڑوا کر جانے کب باہر نکل گیا تھا. ”ادھ ….ادھر ہی ہو گا کہیں”. وہ منمنائی.. ”پیرُو وے پیرُو . . جا بھاگ کے جا دیکھ کدھر گیا وچھّا. وہ پیرُو کو
آوازیں دینے لگی” شریف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بکھا ں کو دو ہاتھ جڑ دیے ”اوئے جواناں…….ٹھل جا ……حیا کر..میاں جی کھانا چھوڑ کر آ گئے”. ”تو جا رو ٹیاں توڑ وڈی حیا والیا..اپنی دھی کی کرتوتیں نہیں دیکھی تم نے؟باشی عورت”. وہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا کہ میاں جی کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر نشان چھوڑ گیا. ”بے حیا. کسی آئے گئے کا ہی حیا کر لے ”. میاں جی مارے ضبط کے کانپ رہے تھے.شریف کے منہ سے تف اڑنے لگی..وہ میاں جی کے گلے پڑ گیا اور ان کی قمیض پھاڑ دی. لات مار کے چارپائی الٹا دی..سالن کا کٹورا میاں جی کی
پگ پر گرا اور پگ کٹورے سمیت زمین پر گری.ساتھ عزت بھی خاک میں مل گئی.. ”چل نکل میرے گھر سے”. وہ میاں جی کو کھینچنے لگا.. ”رب کا واسطہ ہے پیرُو کے پیو..نہ تماشا کر..میرا میاں چار ورے بعد آیا ہے” بکھاں شریف کی منتیں کرنے لگی. ”تو بھی چل ساتھ ہی”. اس نے بکھّا ں کو دھکا دیا.. اتنے میں لوگ جمع ہو گئے ..سب شریف کو سمجھانے لگے..کسی نے وچھّا لا کر باندھ بھی دیا تھا..مگراتنی دیر میں منظر بدل چکا تھا..سی تک نہ کرنے والی بکھّاں زمین پر بیٹھی دو ہتھڑ مار مار کر ، خاک اڑا کے خود پہ ڈال رہی تھی..میاں جی نے پگ
اٹھائی اور گلے میں ڈال کر اس کے پاس آئے.. ”اچھا دھیے.تیرے باپ کی بدنصیبی کہ یہ دن بھی دیکھنا تھا.رب کسی ویری کو بھی دھیوؤں کے دکھ نہ دکھائے”. وہ سرخ آنکھیں لیے کانپتی آواز میں گویا ہوے ..انہوں نے شکستہ انداز میں اسکے سے پر ہاتھ پھیرا اور دروازے کی طرف چل دیے.. ”میاں جی…وہ درد سے چلائی ..میرے اچے کُلے والے میاں جی…..ہائے وے ڈاڈھیا ربا..ویکھ تھلّے آ کے ویکھ ا ج میرے میاں جی کی پگ رل گئی ”.. میاں جی ہٹکورے لیتے ہوئے لمبی لمبی قدم اٹھاتے دور جا رہے تھے وہ اُن کے پیچھے بھاگی.اس کی ہمسائی نے
اسے پکڑا.. ”پاگل نہ بن بکھّاں خود کو سنبھال.. شریف نے تیرے میاں جی کے ساتھ بہت برا کیا..مگر توُ جائے گی تو توُاور برا کرے گی.تجھے ادھر ہی رہنا ہے..یہی بہتر ہے..تیرے لیے . تیرے میاں جی کے لیے..تیری بہنوں کے لیے..توُاگر آج چلی جائے گی تو سوچ کیا ہو گا.وہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی” . اسکا کلیجہ پھٹ رہا تھا .ذلت کے شدید ترین احساس سے اسکا وجود کانپ رہا تھا.اسکی آنکھی لہو رنگ ہو رہی تھیں..آج وہ حقیقتا بکھر گئ تھی..آہ و زاری سے اس کے گلے کی رگیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں.کچھ توقف کے بعد وہاچانک اُٹھ کے
بھاگی..پنڈ سے باہر نکلی اورایک ٹیلے پر چڑھ کر میاں جی کو دیکھنے لگی.وہ روتے ہوئے، ٹیڑھے میڑھے ریتلے راستے پر تیز تیز چلے جا رہے تھے.اس کی ہچکیاں تھم رہی تھیں..طوفان آکر گزرچکا تھا..ہاتھ کا چھجا بنا کر آنکھوں پہ سایہ کیے وہ انہیں دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ نقطہ بنےاور غائب ہو گئے ..شام ہو رہی تھے.. آسمان پر پرندے غول در غول اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے.اسے بھی واپس جانا تھا. ”اے بکھّاں..اے بکھّاں….اُٹھ..اُٹھ جا…..کوئی اسے کندھے سے پکر کر جھنجھوڑ رہا تھا.مگر بکھّاں کو آج کوئی خوف نہیں تھا اس
لیے شریف کے جھنجھوڑنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا…اے اٹھ بدبختے.اکّڑ دیکھاتی ہے؟..شریف نے جھلّا کر اس کا کاندھا کھینچ کر اپنی طرف کیا.بکھّا ں کی نیم واہ آنکھیں بے جان تھیں..ساری رات اذیت کے دوذخ میں جلنے والی بکھّاں کو راہ فرار مل گئی تھی،اب کوئی اس کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا..اب کبھی اس کی وجہ سے اسکے میاں جی کی پگ روندی نہیں جا ئے گی. سُفنے دے وچ ملیا ماہی تے میں گل وچ پا لیّاں باواں ڈر دی ماری اکھّ نہ کھولاں،کتے فیر وچھڑ نی جاواں۔