طاقت کی رسہ کشی

تحریر:- عباس کاشر

آزاد کشمیر جیسے کہ اس کا لفظی مفہوم سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتنا آزاد ہے کئی دہائیوں پر محیط اس چھوٹے سے خطہ کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں 47 میں جب اس ریاست کی بندر بانٹ ہوئی تب سے اب تک اس چار ہزار مربع میل کے ایریا پر محیط ریاست پر کئی نامی گرامی شخصیات کو یہ شرف حاصل رہا کہ وہ یہاں کے اقتدار پر براجمان رہے زیادہ تر نے اپنے اہلِ وعیال کے لیے مال مفت دل بے رحم سے خاصا مال کمایا چند ایک نے اس کو ریاست بنانے اور اس کے اندر بسنے والوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور اس کا خمیازہ سود سمیت وصول کیا اس ریاست کی تاریخ میں قد آور شخصیت ریاست کی بقا و سالمیت کے لئے آواز بلند کرنے والے کے ایچ خورشیدِ کو فیسبکی جنریشن کم ہی جانتی ہو گی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مشکل وقت میں اس مرد آہن نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ میں آمر ہونے کو فوقیت دی، طلباء سیاست سے اس ریاست مـیں وزیراعظم تک کا سفر طے کرنے والے ممتاز حسین راٹھور کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں درویــشی وصفِ کے حامل وزیراعظم کو جی حضوری نہ کرنے پر جرم ضعیفی کی سزا سنائی گئی! طلباء سیاست کا ایک اور درخشندہ ستارہ سردار خالد ابراہیم اصول و کردار کا واویلا کرتے کرتے تاریخ میں آمر ہو گئے، گذشتہ دور حکومت کے وزیراعظم جناب فاروق حیدر کے آنسو بھی اس ریاست کی سالمیت و بقا کے لئے کچھ نہ کر سکے الغرض اس خطہ کی تاریخ پر طاہرانہ نظر دوڑائی جائے تو اس میں ہر وہ شخص یا پارٹی کامیاب ہو سکتی ہے جو مقتدر حلقوں کے آقاؤں کی خوشنودی اور جم کے سہولت کاری کرنے کے گر سے اچھے طرح آشنا ہوں جنہیں اس ریاست کی تعمیر و ترقی سے کوئی سروکار نہ ہو، نہ قانون سازی کی شیخیاں مارے، نہ ہی اس ریاست میں بسنے والوں کی خوداری کی آوازیں نکالے، تعمیر و ترقی کے نام پر کمشن دینے اور لینے والے سب سے زیادہ کامیاب قرار پاتے ہیں، آقاؤں کے بھیجے گئے وآئسرے، لینڈ آفیسرز کو سر آنکھوں پر بٹھانا مضبوط طرز حکمرانی میں سنگ میل ثابت ہوتی ہے، اپنے لوگوں کو بااختیار کرنے کا راغ الاپنا، اپنے پاؤں پر وار کرنے کے مترادف ہوگا
جو بالا ذکر باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا… جو گزشتہ روز ہوا، ہائی کورٹ آزاد کشمیر نے آرٹیکل 45 کااستعمال کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد جموں کشمیر سردار تنویر الیاس کو توہینِ عدالت کے ایک مقدمے میں دو سال کے لئے نااہل قرار دے دیا ۔ سردار تنویر الیاس 12 اپریل 2022ء کو اٌس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر بنے تھے ۔ وہ آزاد کشمیر کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے نہ صرف سیاست کے ذریعے مال نہیں بنایا بلکہ بطورِ وزیراعظم تنخواہ اور دیگر مراعات بھی نہیں لیں ۔ ملی جٌلی شخصیت کے مالک سردار تنویر الیاس پہ اٌن کے مخالفین ذاتی نوعیت کے الزامات بھی لگاتے رہے، اٌنہوں نے ایسے ایشوز کو اڈریس کرنا ضروری نہ سمجھا اور نہ وضاحت اور صفائی دینے میں وقت ضائع کیا ۔ بظاہر آزاد منش نظر آنے والے سردار تنویر الیاس نے اس ریاست کو واقعتاً ریاست سمجھ کر غیر معمولی اقدام اٹھانا شروع کر دیے تھے جو کہ گذشتہ تمام ادوار سے یکسر مطابقت نہیں رکھتے تھے بظاہر یہ سب کچھ عام آدمی اور اس ریاست نما خطہ کے مفاد میں کافی حد تک بہتر دکھائی دے رہی تھیں لیکن اس خطہ کی سیاسی منڈی کے پنڈتوں کو یہ سب کچھ انہونی حرکات کی مانند لگ رہا تھا،باوجود اس کے سابق وزیراعظم جمعہ کی امامت اور علماء و اہل مدارس کے ساتھ اٌٹھتے بیٹھتے و حاضریاں دیتے نظر آئے لیکن مقتدر حلقوں میں بروقت حاضری نہ لگانا اور انہی حلقوں کے تعوض کردہ منظور نظر بیورو کریسی کے سفید ہاتھی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا انہیں لی ڈوبی اس سارے عوامل کو یکسو کرنے کے بعد یہ طہ پایا کہ سردار تنویر الیاس کا جانا ٹھہر گیا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سردار تنویر الیاس کی ذاتی زندگی میں اس طرح کے اسٹٹس کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا. البتہ اس ریاست کو بلا تنخواہ کے وزیراعظم کا ملنا محال ہے…. بطورِ وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس طرح کا فیصلہ آزاد کشمیر عدلیہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا فیصلہ ہے جس میں غیر مشروط طور پر معافی مانگ لینے کے بعد بھی آرٹیکل 45 کا استعمال کیا جاتا ہے اور اتنے جلدی میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جیسے کہ عدلیہ اس عمل کے بعد عالمی رینکگ میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی ہو گی بلکہ عالمی سطح پر مملکت پاکستان کی عدالتی نظام کا نمبر 130 کے بعد آتا ہے،سردار تنویر الیاس خان کے بطور وزیراعظم حکومت کے ایک سال کے دورانیہ کے مثبت اقدامات
32 سالوں بعد آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروایا ۔
آزاد جموں و کشمیر بھر کے جیل خانوں اور ہسپتالوں کے دورے کر کے اٌن کی بہتری کے احکامات جاری کئے ۔
میرپور ڈرائی پورٹ 32 سال بعد بحال کروائی ۔
معلمین القرآن کے لئے 496 نئی آسامیاں تخلیق کیں ۔
آزاد جموں و کشمیر میں رحمتہً للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا
مہاجرین مقبوضہ جموں و کشمیر کے گزارہ الاؤنس میں اضافہ اور ان کی آبادکاری کے لئے اقدامات کئے ۔
عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگوائی ۔
مساجد کے لئے مفت بجلی کی فراہمی کا اعلان کیا ۔
آزاد جموں و کشمیر میں سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات کئے ۔
آزاد جموں و کشمیر میں فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لا کر اس کو متحرک کیا ۔
آزاد کشمیر میں پہلی بار خواتین پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا اور پولیس میں اصلاحات لانے کے لئے اقدامات کئے ۔
آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں میں خواتین کے لئے الگ بس سروس کا آغاز ۔
مظفرآباد تا گلگت بس کا آغاز کیا اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے زمینی رابطے کی بحالی کے لئے شونٹھر ٹنل کی تعمیر کے منصٌوبے کی منظٌوری دی ۔
سردار تنویر الیاس اپنے منصوبوں پہ عدالت کی جانب سے پے در پے حکم امتناعی لگوانے پہ نالاں تھے ۔ معلمین القرآن کی آسامیوں اور سکولوں میں سعودی عرب کے تعاون سے کتب کی فراہم کے علاوہ بے شمار کام عدالت نے رکوائے ہوئے ہیں
جس پر ان جانا ٹھہرا اب ان سب منصوبوں کا جاری رہنا ممکن ہو گا یا نہیں یہ تو ہر کوئی بخوبی اندازہ کر سکتا ہے