فصیل دفاع کا تقدس

تحریر:۔ راحت فاروق راجہ ایڈووکیٹ

گریٹر برطانیہ کے بطن سے جنم لیتے ہی وطن عزیز نے بہت نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے کئی بحرانوں کا مقابلہ کیا۔اس کی کو کھ سے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کا تعین کرنے والے آئین کی پیدائش اور پھر اداروں کا پروان چڑھنا لا زوال جدوجہد سے معمور درخشاں تاریخ کا حصہ ہے۔جس پر یہ قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے کی طرح ارض پاکستان میں آئین کو وہی بنیادی حیثیت حاصل ہے جو ایک شجر سایہ دار کی جڑوں کو ہوتی ہے جس سے چھتکار آسودگی اور عوام کے لیے عزت و وقار اور جان و مال کا تحفظ فراہم ہوتا ہے۔اور یہ سارا عمل ایک مضبوط اور مستحکم دفاعی حصار کے بغیر نا ممکن ہے۔جس کے لیے افواج پاکستان کی اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو درپیش داخلی تخریب کاروں اور شرپسندوں کی سرکوبی کے لیے سول انتظامیہ کی معاونت ضروری ہے۔یہ آئین ہی ہے جو حدود و قیود کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں کو اختیارات کا پیرہن پہناتا ہے۔پاکستان میں قائم اداروں کا اگرغیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو افواج پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو میرٹ، انصاف اور ڈسپلن کے زریں اصولوں سے مزین ہے۔اور جو اپنے جوانوں کو پاکستان ملٹری اکیڈمی جیسی معتبر تربیت گاہ میں سخت ترین،پرمشقت پیشہ وارانہ تربیت سے گزارنے کے ساتھ ساتھ رواداری، تحمل و برداشت ، اُجلی روایات اور تہذیبی اقدار سے آراستہ و پیراستہ کر کے جب میدان میں اتارتی ہیں اور پی ایم اے میں جانے والا ایک عام جوان جب پیشہ وارانہ تربیت مکمل کر کے وطن کی مٹی پر قربان ہو جانے کا جذبہ لے کرکندن بن کر باہر آتا ہے تو اُس کی شخصیت کا نکھار پوری قوم کے لیے قابل رشک اور باعث فخر ہوتا ہے اسی لیے بجا طور پر کہا گیا ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘‘ خاکی وردی میں ملبوس وطن کے یہ بیٹے وطن عزیز اور اپنی قوم پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کے جذبے سے سرشار ہو کر خون کا آخری قطرہ بہا دینے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔یہ سرحدوں پر پہرا دیتے ہیں تو ان کی قوم سکون کی نیند سوتی ہے خاکی وردی اور وطن کی خاک سے محبت لازم و ملزوم ہیں مادر وطن کی حفاظت کا حلف لے کر سرحدوں پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے والے، دشمن کی گولی کو وطن کی خاک میں پیوست ہونے کے بجائے اپنے سینے پر اُتارکر فخر سے جام شہادت نوش کرنے والے وطن کے بیٹے ہمارا مان ہیں ہماری پہچان ہیں جن کی بہادری اور جرات بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہے۔مگر مسلح افواج جنگوں میں دشمن کو خاک چٹانے، دشمن کے حملے کے نتیجہ میں اپنا سینہ پیش کرد ینے، جرات بہادری اور استقلال کی عظیم داستانیں رقم کرنے کا حوصلہ اور جذبہ اپنی قوم سے کشید کرتی ہیں۔پاکستانی قوم اپنی مصلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارتوں کی ہمیشہ معترف رہی اور ان پر فخر کرتی رہی مگر تاریخ کے مقدر میں 09مئی 2023ء جیسا سیاہ ترین دن بھی کندہ ہونا تھا جب ریاست کے انتظامی اداروں کی مجرمانہ غفلت سے شرپسند عناصر کے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی تاریخی عمارتوں کو نذر آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ جیسے ہولناک اور کرب ناک مناظر چشم فلک کو دیکھنا پڑے۔جن کی صرف مزاحمت کافی نہیں بلکہ اس مربوط منصوبے کو منطقی انجام تک پہنچا کر ملزمان کو نشان عبرت بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد کر کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف نافذ العمل ریاستی قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کی سیکشن 2-Dاور آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت ٹرائل کے ذریعے ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

Sec2(d)(ii): The following persons shall be subject to this act, namely, having committed, offence in relation to any work of defence, arsenal, navel, military or Air force, establishment or station, ship or Aircraft or otherwise in relation to the navel, military or airforce affairs of Paksitan, an offence under the official Secret act 1923.

پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کا چیپٹرV جرائم سے متعلق ہے جس کی سیکشن Civil Offences59سے متعلق ہے جبکہ چیپٹرViiسزائوں سے متعلق اور چیپٹرXسزائوں کی کنفرمیشن اور Revisionجبکہ چیپٹرXiسزائوں کے عملدرآمد سے متعلق ہے موجودہ صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت واقعات کی مزمت کرنے اور اپنے کارکنوں کی بے راہ روی والے شرمناک رویوں کی غلطی کو تسلیم کرنے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کے بجائے غیظ و غضب ، اشتعال اور نفرت کے بارود کو اور ہوا دے رہی ہے۔جو مزید تصادم کا باعث بنے گا۔جس کا نقصان بحرحال اس ملک اور قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ہمارے ہاں یہ المیہ بھی کسی سانحہ سے کم نہیں کہ ریاست میں انتظامیہ، معاشرتی اداروں اور دیگر سیاسی سماجی اداروں کے مابین فرق ملحوظ خاطر رکھے بغیر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جانے کی روش پروان پا چکی ہے۔جس کے نتیجہ میں اقتدار سیاست کے کھلاڑی اُس حوصلے ، تحمل اور بردباری کی روش سے عاری ہو چکے ہیں جس سے پارلیمانی جمہوریت کا حسن قائم رہتا ہے۔اور یہ نظام عوام کی امنگوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔حالیہ واقعات سے وطن عزیز کے اس حصار میں اور دفاع کی فصیل شگاف ڈالنے کی کوشش کی گئی جو حاسدین اور دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتے ہیں ایسے میں غرناطہ کے مسلمانوں پہ بیتنے والی قیامت تاریخ کے اوراق پر ہمارے لیے سبق کے طور پر موجود ہے۔آخر میں ببانگ دہل اس امر کا اظہار اپنی ذات اور ہر با ضمیر پاکستانی پر فرض سمجھتی ہیں کہ وہ قولاً اور فعلاً مخالفین پر یہ عیاں کر دے کہ ہم اپنی فصیل دفاع اور اس کے محافظوں کے شانہ بشانہ ہیں۔اور اس کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔

٭٭٭

آج ہمارا طرز گفتگو شاید آپ کو نامانوس سا لگے ۔ مگر قاری اور قلمکار کے رشتے میں باہم ذمہ داریوں کے تقاضے نہ نبھائے جائیں تو نہ صرف یہ فکری بد دیانتی شمار ہوتی ہے بلکہ ہمارے خیال میں قلمکار ایک خیانت مجرمانہ کا مرتکب ٹھہرتا ہے ضروری نہیں کہ ہماری لکھی ہوئی ہر بات سے ہر پڑھنے والا متفق ہو مگر یہ قلمکار کا فرض ہے کہ وہ اپنے قارئین کی فکری سطح کو بلند کرنے کے لئے نہ صرف حقیقت سے نظریں نہ چرائے بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے صلہ و ستائش اور طنز و تنقید سے بے نیاز ہو کر فیصلہ کرے۔
ہم مانتے ہیں کہ مفادات سے بالا تر فیصلہ کرنا خواہ کسی بھی سطح پر ہو ایک مشکل کام ہے اسے قبول کرنا اور مشکل اور اس پر عملدرآمد کرنا تو اور بھی مشکل ہے۔ مگر معاشرے کی نشو و نما اور ارتقاء کے لئے ہمیں اس پست فکری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

عصری جمہوریت کی بنیاد اور تصور اور مثبت انداز میں نشوو نما پانے کی خواہش مقامی بلدیاتی اداروں کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی بے آب و گیاہ صحراکی تپتی ریت سے ٹھنڈک حاصل کرنے کی خواہش و تمنا کرے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد کبھی بھی اور کسی بھی جمہوری دور میں متذکرہ حقیقت کو نہ تو تسلیم کیا گیا اور نہ ہی محسوس کیا گیا۔ بلکہ ہر قیامت عمارت نو ساختہ کے مصداق یا یوں کہہ لیجئے کہ جب کبھی بھی جس کسی کو عوامی رائے کی بنیاد پر صاحب اختیار و اقتدار ہونے کا موقع ملا تو اس نے سکہ شاہی انداز میں نظام کو چلانا از بس ضروری خیال کیا بجائے اس کے کہ وہ کوئی مثبت روایات قائم کرنا۔معافی چاہتی ہوں کہ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مگر حقیقت یہی ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حساس اور درد مند دل رکھنے والے مثبت فکر کے حامل باشعور افراد معاشرہ نے بالآخر زنجیر عدل کو ہلانا ضروری جانا ہماری مراد بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہونے والی عدالتی چارہ جوئی ہے اور تمام تر سختی حالات کے باوجود عدلیہ نے ایک بار پھر اپنی روش و تابندہ روایات کا احیاء کرتے ہوئے قانون کی پاسداری و عملدرآمد کے حوالے سے اپنا فرض نبھایا جسے یاران چمن تاریخی فیصلہ کا نام دیتے ہیں۔ جس میں دو ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا گیا۔ مگر حکومت کی طرف سے عدالت العظمیٰ میں اپیل کر دی گئی کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کو Direction دی جائے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومت کو فنڈز مہیا کرے۔ یہ منطق سمجھ سے بالا ترہے کہ حکومت کو ان انتخابات کے انعقاد کے لئے اپنے ہی organ کے خلاف عدالتی حکم کی ضرورت کیوں پڑ گئی ۔ جبکہ دیگر تمام معاملات اور عنان حکومت چلانے کے لئے فنڈز وافر مقدار میں موجو دہیں۔ ریاستی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی بھی یہ بدقسمتی رہی کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کے سہانے خواب تو بہت دکھائے جاتے ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی یہ اختیارات کی منتقلی ارباب بست و کشاد کے لئے کڑوی گولی بن جاتی ہے۔ جسے اپنا عرصہ اقتدار پورا ہونے تک وہ دائیں بائیں چباتے رہتے ہیں نہ نگلتے ہیں نہ اگلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی عدالتی حکم کے بعد ہی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا عمل شروع ہوا اور آزاد کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح منکشف ہے کہ کوئی بھی معاشرہ تفکر ، جستجو اور پیداواری سرگرمیوں کے نتیجے میں ارتقاء کے عمل سے گزر کر اپنی منازل طے کرتا ہے اور مسابقت کی دوڑ میں معاشرے کو پسماندگی اور انحطاط پذیری سے بچائے رکھنے میں تندرست ذہن والے صحت مند افراد معاشرہ ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں یہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب ہر فرد اور ادارہ اپنے دائرہ کار میں فرائض سرانجام دے اور اداروں کو مستحکم کیا جائے۔ جس طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں چلانے کے لئے اور قومی اور صوبائی سطح کے معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے قومی انتخابات کا انعقاد ضروری ہے تو وہاں ضلع اور تحصیل کی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرنے اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے بلدیاتی انتخابات بے حد ضروری ہیں ۔ اس نظام کی اہمیت پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے کسی بھی ملک کا جمہوری ڈھانچہ لوکل کونسلوں کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا اور عام آدمی کے مسائل کو مقامی سطح پر منتخب ہونے والے نمائندگان ہی حل کر سکتے ہیں قومی سطح پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمائندگان کا کام تو قانون سازی کرنا ہے لہذا بلدیاتی اداروں کو اختیارات دے کر ہی نچلی سطح پر بہتری لائی جا سکتی ہے اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے اس نسبت 1960ء میں باقاعدہ قانون نافذ کیا گیا جس میں اداروں کی تشکیل ، کام کرنے کا طریقہ کار اور فرائض اور اختیارات سے عہدہ برآ ہونے کے دائرہ عمل او رطریقہ کار کو بیان کیا گیا۔
ریاست آزاد جموںو کشمیر Laws code میں Azad Jammu & Kashmir Basic Democracies Act 1960 کے چیپٹرVI میں Function of Local Courtsموجود ہیں جس کی مکمل تفصیل شیڈولThird میں دی گئی ہے لوکل کونسلز کے ذمہ محلوں کی صفائی، سیورج نظام کی دیکھ بھال ، بوسیدہ عمارتوں کے نقصان سے بچائو کی تدابیر اور دیگر کئی اختیارات اور فرائض کی بجا آوری جن کا تعلق براہ راست عوام کی فلاح و بہبود سے ہے ظاہر ہے ان مسائل کو مقامی سطح پر منتخب نمائندگان ہی حل کر کے عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیل لا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آزاد ریاست میں 1991ء میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اس کے بعد ہر آنے والی حکومت کے کئی مرتبہ اعلانات ، دعوئوں اور وعدوں کے باوجود ان انتخابات کا انعقاد، لوکل اداروں کا استحکام و احیاء حکومتی اداروں پر سوالیہ نشان جبکہ عوام جو نہ صرف بنیادی حقوق سے محروم ہیں بلکہ در حقیقت سیاسی فکر و شعور اور مقامی سطح پر عوام کے مسائل اور عوام کی فلاح و بہبود کے گہرے ادراک کی حامل قیادت سے بھی محروم ہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ بلدیاتی انتخابات ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جو گروہی اور فتنہ فساد کی سیاست کا قلع قمع کر کے عوامی نمائندوں کی بہتر انداز سے سیاسی تربیت کر سکتے ہیں اور ملک اور قوم کو قدآور سیاسی قیادت مہیا کر سکتے ہیں۔
یہ بات بہت حوصلہ افزاء ہے کہ عوامی سطح پر موجود ہ سیاسی و اخلاقی زوال ، اعلیٰ قدوں کی پامالی کا ادراک رکھتے ہوئے وقتی مفادات اور جلب منفعت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس معاملے کو عدلیہ سے توقعات وابستہ کرتے ہوئے وہاں اٹھایا گیا اور عدلیہ نے بھی اپنے فیصلے کے ذریعے ماضی کی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمت و جرات اور فکر و نظر کی بالیدگی سے بہت موثر انداز سے عوامی مفادات کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے عوامی جذبات کی ترجمانی کی ۔ جسے یقینا مستقبل کا مورخ شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اپنے فیصلے پر اتنی ہی قوت سے عملدرآمد بھی کروائے کیونکہ ہماری حکومتوں کے مزاج کا حصہ ہی بن چکا کہ عوام پانی جیسی بنیادی ضرورت زندگی کے لئے سڑکوں پر سینہ کوبی کریں ، اپنے آبائو اجداد کی قبروں کو پانی میں ڈبونے تک کی قربانی دینے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لئے دھرنے دیں ، اور اسی طرز پر دیگر مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں، شاید عدالتی احکامات اور عوام کا پرزور مطالبہ حکومت کو ان انتخابات کے انعقاد کی طرف راغب کر سکے۔ قارئین سے اجازت لینے سے پہلے ارباب اقتدار سے یہ درخواست ضرور کرنا چاہتی ہوں کہ اقتدار کا دورانیہ تو بہت محدود ہوتا ہے مگر اس دور انیہ میں کئے گئے مثبت اقدامات تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ آدمیت کے معیار اور انسانیت کی قدروں کو زبان ، علاقے یا نسل کی سیاست پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اگر موجودہ حکومت اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا شیڈول جاری کرنے کا مقدس فریضہ سرانجام دے تو یہ یقینا ایک عظیم کارنامہ ہو گا اور ریاستی عوام پر احسان عظیم بھی۔ عدالت نے اپنا فریضہ کما حقہ ادا کیا، اب عوام کی نظریں قیادت پر ہیں۔