یونین کونسل رتنوئی ناگزیر

 تحریر :سردار عثمان کاشر  

ریاست جموں کشمیر 1947 سے قبل جب شخصی راج میں ارتقاء سے گزر رہی تھی اس زمانہ میں ریاست میں بہت سے نمایاں مقام رکھنے والے علاقے موجود تھے ۔رتنوئی بھی ان مقامات میں سے ایک ہے ۔رتنوئی کا نام سردار رتن خان کے نام سے رتنوئی لکھا اور بولا گیا ۔اس علاقے میں صدیوں سے مختلف قبائل آباد ہیں۔ یہاں کی عوام آپس کی نفرتوں بغض اور حسد جیسی بیماریوں سے دور تھے مگر 1947 کے بعد جہاں بہت سی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں نے اپنی جگہ بنائی وہاں رویوں میں بھی ردوبدل رونما ہوا۔یہ علاقہ ڈوگرا دور سے قبل بھی. تاریخ اہمیت کا حامل تھا ۔اس کی ایک مثال 1832کے عظیم مزاہمت کار سردار شمس خان ملدیال کی طرف سے اپنے قیمتی سازو سامان بطور امانت ہمارے داداسردار ایوا خان کو بھیجنے سے بھی ملتی ہے۔مگر بدقسمتی سے 1947 کے بعد جہاں ہماری قومی بدترین غلامی کا آغاز ہوا وہاں اس علاقے کی تاریخی اہمیت اور حثیت بھی رسوائی کا شکار ہو گئی ۔یاد رہے اس علاقے کے نمبرداروں نے 1947 میں قبائلی حملہ آوروں کی حمایت کے بجائے مزاہمت کا کرداد اپنایا تھا جس کے بدلہ میں کئی معصوم جانوں نے قربانی دی ۔نمبرداری نظام کے خاتمہ کے بعدایک لمبے عرصے تک سیاسی اور سماجی ترقی سے دور رکھتے ہوئے اس علاقے کو بدترین اور غیر فطری سیاسی تقسیم کا شکار رکھا گیا۔یہ علاقہ چونکہ باغ کے حلقہ شرقی کا نقطہ اغاز ہے اس لیے جہاں حلقہ وسطی کا اختتام ہوتا ہے وہاں اس کی شروعات ہوتی ہے ۔اس علاقے کی محرومی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں سے جیتنے والا ایم ایل اے حلقہ شرقی کا وزیز تو بن جاتا تھا مگر انتظامی غیر فطری تقسیم۔کی وجہ سے جس یونین کونسل کے ساتھ اس علاقے کو منسلک رکھا گیا وہ وسطی حلقہ میں موجود ہے ۔جس کو بیرپانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب اس غیر فطری تقسیم کے خلاف عوام میں باشعور ہونے والے بزرگوں نے 1982 میں رتنوئی کو علیحدہ یونین کونسل کا درجہ دینے کی کوشش کی جس کی بدولت ہی 1992 اور 2017 میں دو ٹوٹیفکشن بھی ہوئے ۔جو وقت کے جبر کی نظر ہو گئے ۔اب یونین کونسل کی ابادی تقریبا 20ہزار سے زیادہ ہے مگر اس وقت سپرہم کورٹ اف آزاد جموں کشمیر کے حکم کی روشنی میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندی کی جانے کا حکم ہے۔آس حکم کی روشنی میں جو بات سمجھنے کی ہے ۔وہ یہ ہے کہ مردم شماری کرتے وقت ضلع بھر کی ابادی کو جمع کیا گیا جس کی وجہ سے علاقے کی مردم شماری حکومت کے اعدادو شمار میں کسی صورت درست نھیں آس کی اصل وجہ یونین کونسل رتنوئی کے تمام علاقوں سے 70%عوام بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث باغ شہر سمیت پاکستان میں آباد ہیں یہ تمام عوام یونین کونسل کے بنیادی فریق ہونے کے ناطہ تمام سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی حقوق کے ساتھ ساتھ جہموری حقوق کے حق دار بھی ہیں۔آب ان تمام لوگوں کے ووٹ تقریبا اپنے اپنے پولنگ سیٹیشن پہ ہی درج ہے جو تقریباً فروی تک ،9ہزار ہوں گے ۔اس ضمن میں اعلی عدالت کو پہلے مراحل پہ اپنے حکم کو تبدیل کرتے ہوہے متعلقہ یونین کونسل کی ابادی کو یا تو ووٹ کے مقابلہ میں تین گناہ اضافہ کو تسلیم کرتے ہوئے نوٹفیکشن جاری کرنے چاھیے یا تمام مقامی عوام کی ری مردم شماری کر کے اس مسلہ کا درست اور جمعوری حل نکالنا چاہیے ۔دوسری گزاش اگر 2017 کی مردم شماری ہی آخر حل مان لیا جاتا ہے تو ایسے میں یونین کونسل رتنوئی کی ابادی تقریبا 8000 نفوس پہ مشتمل ہے ۔اب اس کے ملحقہ دو علاقے جن میں صوفہ اور سیور متوالی کے علاقے شامل کر کے یہاں کی عوام کا سیاسی جہموری اور بنیادی حل دیا جائے یونین کونسل کے حصول کے لیے یہ تجویز ہم ڈپٹی کمشنر باغ صابر مغل اور اسسٹنٹ کمشنر بینش جرال کو دیں چکے ہیں۔آگر ہمیں کسی کم ابادی والے علاقے سے لگا کہ رتنوئی کی جگہ کسی اور نام سے بنانے کی کوشش کی گئی تو ہم سیاسی اور قانونی جنگ لڑنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اس وضاحت کے بعد میں یقین کامل کے ساتھ کہتا ہو ہم اپنا حق لینے تک چین سے نھیں بیٹھیں گے۔مجھے یقین ہے ہماری عوام اپنے حق کے لیے ہمیشہ کی طرح ہمارے ساتھ کھڑی ہو گی ۔