ہیجڑے ۔۔۔ تحریر:شعیب الطاف

شعیب صاحب اس ملک میں برادری ازم کو لے کر ہم سے زیادہ انتہا پسند کوئی نہیں، کیونکہ ہم اپنی فطری کمزوری کے باعث ایک برادری بلکہ ایک قوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ اس نے سیگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر دھواں ہوا میں اڑایا۔ ہمار ی گلی میں کرایہ کے ایک مکان میں خواجہ سرا ؤں کا ایک گروہ رہتا ہے ، آج الیکشن کمپین امیدوار گھر گھر ووٹ مانگنے آئے تو خواجہ سراؤں نے گالی گلوچ کر کے ان کو بھگایا۔ اور اب گلی میں تماشا دیکھنے والوں کے ہجوم کو تتر بتر کرنے کے بعد ماہ نور( خواجہ سرا ) مجھے گھیر کے کھڑا تھا۔
ایک توقف کے بعد اس نے بات دوبارہ شروع کی۔ ہمارے تو جسمانی طور پر اللہ نے شاید کوئی کمی رکھ چھوڑی ہے لیکن معذرت کے ساتھ آپ سب لوگ ذہنی طور پر ہم سے بڑے ہیجڑے ہیں ۔ پانچ سال تک ہمارے سامنے آپ مفکر بن کر گلیوں محلوں میں ، دکانوں پر، دفتروں میں ہر جگہ ملک اور ملکی سلامتی کا رونا روتے ہیں ، کبھی دہشت گردی ، کبھی ملکی معیشت، کبھی مہنگائی، کبھی لوڈشیڈنگ تو کبھی پانی اور نکاسی آب کا واویلا کرتے ہیں ، لیکن پانچ سال بعد جب زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں تو آپ کو ملک اور ملکی سلامتی بھول جاتی ہے۔ آپ سے بڑا ظالم اور انتہا پسند کون ہوگا کہ آپ کا اپنے علاقے کا عوامی نمائندہ منتخب کرنے کا معیار ہی کوئی نہیں۔ پانچ سال ملک ملک ، اور الیکشن میں میرا دوست، میری برادری، میرا مسلک آپ کا معیار بن جاتا ہے۔ تب ملک کی محبت کہاں جاتی ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ جس شخص کے ساتھ ابھی آپ گلے مل کر ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے وہ اس علاقے کا چھٹا ہوا غنڈہ ہے، قبضہ مافیا، بدمعاشی، ناجائز فروشی اور رسہ گیروں کی پشت پناہی اس کا ذریعہ معاش ہے۔ ایسے شخص کو آپ اسمبلی میں بھیجنے کے لیے کیسے تیار ہو سکتے ہیں؟ میٹرک فیل آدمی اسمبلی میں جا کر کیا ملکی معیشت کو سہارا دے گا؟ اسے اسمبلی کے سپیلنگ بھی نہیں آتے ہونگے تو وہ خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے کیا کرے گا؟ وہ اسمبلی میں پیش ہونیوالے ترمیمی بلوں پہ سوچ وچار کیا کرے گا؟ ہمیں آ پ کا معاشرہ مقام نہیں دیتا تو کوئی بات نہیں لیکن آپ لوگ مقام والے ہیں آپ کیا کر رہے ہیں اس معاشرے کے لیے؟ ایک گلی پختہ ہونے کے عوض ووٹ؟ ایک نالے کی تعمیر پہ ووٹ؟ ایک بریانی کی پلیٹ پہ؟ تھانے کچری میں صرف فون کی حد تک مدد کرنے پہ ووٹ؟حد ہوتی ہے ویسے۔۔۔
اس نے سیگریٹ کو دو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر زور سے دور اچھال دیا اور کہا، میں نے یہ سیگریٹ کا ٹکڑا گلی میں پھینکا تو آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا، آپ کی دانشوری اور صحافت بھنگ پی کر سو رہی ہے، یہی اگر میں آپ کے گھر کے اندر پھینکتا تو آپ کو لگ آگ جاتی اور آپ آسمان سر پہ اٹھا لیتے۔ یہ گلی بھی آپ کی ہے جیسے وہ گھر آپ کا ہے لیکن یہاں آپ کو تکلیف اس لیے نہیں ہوئی کہ آپ نے اسے اپنا سمجھا نہیں۔ یہ کوڑا کرکٹ سے بھرے ہوئے شاپر دیکھیں ہر طرف ، یہ گھروں والے اپنا کچرا اٹھا کر گلی میں پھینک کر سمجھتے ہیں صفائی ہو گئی لیکن نادان ہیں ، آنکھوں والے اندھے ہیں۔ جب آپ لوگ خود سمجھنے کو تیار نہیں تو کوئی آپ کو سمجھا نہیں سکتا۔
یہ جو ووٹ مانگنے آتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ ہم سے بے وقوف اور لائی لگ کوئی نہیں ، دو میٹھی باتیں ، ایک آدھ جھوٹا وعدہ اور ذا ت برادری اور دھڑے بندی کے نام میں ہم اپنا قیمتی ووٹ ان کے حوالے کر دیں گے۔ یہ بندہ جو ابھی گیا ہے اس نے پانچ ہزار روپے فی ووٹ لوگوں کو آفر کی ہے ۔ دو گھروں کا بجلی کا بل میرے سامنے اس کے باڈی گارڈ لے کر گئے ادا کرنے کے لیے، مطلب انسٹھ ماہ تک پھر گالیاں دیتے ہوئے خود ہی بھرنا ہے اور تب ملک کی بھی یاد آنی ہے۔ یہ بندہ اگر بارہ کروڑ روپے اپنے الیکشن پہ لگائے گا تو منافع کے ساتھ پورے بھی توآپ لوگوں سے ہی کرے گا نا۔۔۔۔ اس کا لہجہ تلخ اور آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
ہم تو جاہل مطلق اور زمانے کی دھتکاری ہوئی مخلوق ہیں ، آپ تو معاشرے میں عزت دار کہلواتے ہیں پھر آپ کا دماغ کیوں نہیں کام کرتا۔ خدا کی شان ہے یا پھر آپ کی زبوں حالی کی انتہا کہ ہم جسمانی ہیجڑوں کو آپ ذہنی ہیجڑوں پہ ترس آتا ہے۔ آپ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اپنی سوچ تبدیل کرنے پہ تیار نہیں ، آپ ابھی تک جٹ، آرائیں ، راجپوت، یہ برادری وہ برادری سے باہر نکل کر پاکستانی بننے کو تیار نہیں، آ پ کاروبار میں بے ایمانی اور ملاوٹ سے منافع خوری کو ایمان سمجھتے ہیں ، نوکری پیشہ کہتا ہے کام نہ کروں تنخواہ مل جائے، جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ لوٹ کھسوٹ اور ملک کو نوچنے میں مصروف ہے۔
اس کی آواز میں شامل گھمبیرتا کو محسوس کر کے میں نے جھرجھری لی، وہ بولا۔۔۔۔ جس دن آپ سب اپنا کام ایمان داری سے کرنا شروع کریں گے ، مذہب ، مسلک، ذات برادری اور من و تو سے باہر آئیں گے اس دن اصل تبدیلی شروع ہوگی۔ یہ آخری موقع ہے آپ کے پاس کہ خود کو ایک قوم کے طور پر منوا لیں ورنہ آپ نہیں جانتے کہ ہیجڑے کے مسائل کیا کیاہیں۔ اور یاد رکھنا دنیا آپ کو ذہنی ہیجڑوں کے طور پر یاد رکھے گی۔
ہم تو خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم ناچ ناچ کر ہلکان ہو جاتے ہیں اور برا حال ہو جاتا ہے تب جا کر کہیں لوگ ہم پر دس دس کے نوٹ نچھاور کرتے ہیں جنہیں ہم زمین سے اٹھا کر گھر آ کر چومتے ہیں کہ ہم نے پسینہ بہا کر اپنی گزر بسر کی۔ جبکہ آپ سب کا معیار صرف پیسہ ہے وہ ہی آپ کا دین دھرم ہے لیکن اس کے لیے آپ محنت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پسینہ نہیں بہانا چاہتے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں بے ترتیب اور مسلسل بولے جا رہا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمارا اس معاشرے میں کوئی مقام نہیں ، نہ ہی ہمیں کوئی ہمارا مقام دینے کو تیار ہے پھر بھی خدا کی قسم جب کبھی خبروں میں سنتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی کہیں سبکی ہوئی یا گرتی ہوئی معیشت میں کہیں نام آیا یا کرپشن زدہ ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو ہمارے ڈیرے(گھر) میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ہم باقاعدہ سوگ مناتے ہیں ہماری آنکھیں آبدیدہ ہوتی ہیں لیکن اسی دن ہماری فنکشن کی بکنگ ہوتی ہے اور اس ملک کی سلامتی کا رونا رونے والے آپ جیسے دانشور اور اشرافیہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر ہم سے فرمائشی ڈانس کروا کر قہقے لگا رہے ہوتے ہیں ، وہ واپس پلٹتے ہوئے بولا، آپ صحافی ہیں ۔۔ میرا اس ملک کے لوگوں تک پیغام پہنچا دینا کہ ایک جسمانی ہیجڑا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ آخری موقع ہے اپنے آپ کو سنبھالنے کا۔ اگر یہ ہاتھ سے نکل گیا تو بہت برا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو سامنے لاؤ جو اس ملک کا بھلا کر سکیں ، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے سکیں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ اگر اس بار بھی غلط فیصلے ہوئے تو آپ کی آنے والی نسلوں کو ہماری طرح ہر طرف سے ذلالت کا سامنے کرنا پڑے گا۔ اور ساری دنیا انہیں ذہنی ہیجڑا کہہ کر پکارا کرے گی۔اس نے اپنا پھینکا ہوا سیگریٹ کا ٹکڑا آگے بڑھ کے اٹھا اور اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔