نعیم بٹ شہید کا خون اور ہمارا کردار

سردار انور ایڈوکیٹ

انسانی تاریخ گواہ ھے کہ سماجی سائنسی معاشی معاشرتی ارتقاء میں مزاحمت کاروں کا کلیدی کردار رہا ھے ظالم اور مظلوم حاکم اور محکوم غاصب اور مخصوب کی لڑائی بہت پرانی ھے یہ اس وقت تک جاری رھے گی جب تک انسان دشمن سماج کے بجاے انسان دوست سماج کی تشکیل نہیں ھوتی مزاحتمی اور غیر جانبدار تاریخ نے ہمیشہ ان مزاحتمی کرداروں کو اپنے دامن میں جگہ دی ھے جنہوں نے غاصب اور قابض قوتوں کے خلاف اپنے آج کو قوم کے کل پر قربان کیا ھے ریاست جموں کشمیر کی غلامی کے خلاف موجودہ مزاحمتی تحریک اور جدید ریاستی تصور کے بانی مقبول بٹ شہید اشفاق مجید وانی شہید عبدلحمید شیخ شیہد ڈاکٹر عبدلاحد گرو شبیر صدیقی جمیل چوہدری شہید سےلے کر ..نعیم بٹ شہید تک ہزاروں ایسے وطن کے بیٹے جہنوں نے مادر وطن کی آذادی اور حرمت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قومی آذادی کی تحریک کو جلا بخشی ھے ان کی لازوال قربانیاں تاریخ کاباب اور آنے والی نسلوں کا نصاب ھیں…نعیم بٹ شہید جس نے اپنی جدوجہد کا آغاز جموں کشمیر سٹوڈنس لبریشن فرنت کے پلیٹ فارم سےکیاآخری سانس تک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا پرچم تھامے غاصب قوتوں اور انکے کے سہولت کاروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جہاں اپنی پیاسی دھرتی کو سیراب کر گیا وہاں اپنے سرخ پرچم کو اپنے مقدس لہو ایسا رنگین کر گیا کہ جس کی مہک اس کے دوستوں کے لیے آکسجن ھے اور قاتلوں کے لیے خوف اور ڈر کا نہ ختم ھونے والا احساس.. ..16 مارچ 2018 کے امن مارچ میں قابض قوتوں کی سہولت کار پولیس کی فائرنگ سے شدید زخمی ھونے والے وطن کے سپوت نعیم بٹ زخموں کی تاب نہ لاتے ھوے ایک ہفتے بعد آسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار کر منافق اور قابض قوتوں اور ان کے سہولت کاروں کا چہرہ بے نقاب کر گئے راقم 17 مارچ سے لیکر 22 مارچ تک دن رات نعیم بٹ شہید کے ساتھ انکے بھاہیوں کے ساتھ ہسپتال میں ھی رہا پھر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی جملہ قیادت کے ساتھ جسد خاکی لےکر رولاکوٹ کی طرف روانہ ھوا اور رولاکوٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور پرامن عوامی اجتجاج اور دھرنا جس کے نتجے میں کٹھ پتلی ریاستی سہولت کار حکمرانوں نے گھٹنے ٹیکتے ھوے عوامی اجتجاج اور نعیم بٹ شہید کمیٹی کے مطالبے پر جسٹس شیراز کیانی مرحوم کی سربراہی میں جوڈیشنل کیمشن قائم کیا( جو 2020 میں کرونا کے باعث انتقال کر گئے تھے) اور نامزد ملزمان ڈی سی اور ایس پی کو معطل کرنے کا وعدہ کیا نعیم بٹ شہید کی تدفین کے دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعیم بٹ شہید کے قاتل ڈی سی اور ایس پی وہاں دندناتے پھرتے رھے اور لوگوں سے کہتے رھے کہ مارچ میں لوگ شہید ھوتے رہتے ھیں اس سے کیا فرق پڑتا ھے؟ ہم نے نعیم بٹ شہید کمیٹی کے زیر اہتمام 4 اپریل کو پریس کانفرنس کر کے حکومت کو متنبہ کیا کہ نعیم بٹ شہید کے قاتلوں کو معطل کر کے انکوائری کر کے انکو سزا دی جاے ورنہ ہم اجتجاج کا راستہ اختیار کریں گے اسی دوران راقم اور نعیم بٹ شہید کمیٹی کے ذمہ داران نے جوڈیشنل کمیشن کے سربراہ محترم جسٹس شیراز کیانی مرحوم کو پرامن مارچ پر فائرنگ کے واقعات پر حقائق سے آگاہ کیا بلکہ انہیں جاے وقعہ کا دورا کرنے ہجیرہ بار کے وکلاء اور مقامی آبادی سے مل کے غیر جانبدارنہ تحقیق کرنے کی تجاویز بھی دیں جن کا انہوں نے خیر مقدم کیا یہاں میں نیلم سے تعلق رکھنے والے ایک محسن صحافی دوست امیر الدین مغل کا ذکرکرنا ضروری سمجھتا ھوں جس کے پاس پورے مارچ کی وڈیوز اور تصاویر تھیں جب اس سے کہا کہ وہ سارے ثبوت دے تو اس نے شرط رکھ لی کہ جسٹس صاحب سے میری ملاقات کرائی جاے تو یہ سارے ثبوت میں ان کو خود دوں گا راقم نے مظفرآبار میں صحافی امیر الدین صاحب کی جسٹس شیراز کیانی مرحوم کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کروایا ان وڈیو اور تصاویر کے شواہد اور غیر جانبدارنہ تحقیق کی روشنی میں جوڈیشنل کمیشن نے تقریبا 290 صحفات پر رپورٹ جاری کی اس پورے عمل میں مرحوم جسٹس شیراز کیانی اور پیارے دوست صحافی امیر الدین مغل کا اہم کردار ھے جنہوں نے شدید ریاستی اور غیر ریاستی دباو کے باوجود اپنے پیشے سے انصاف کے تقاضے پورے کیے لیکن سہولت کار حکومت اور ان کے غیر ملکی قوتوں کے مخبر اہلکار نہ تو جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ شائع کر رھے تھے اور نہ ھی قاتل ملزمان کے خلاف کروائی تب اس کٹھ پتلی حکومت کے رویے کے خلاف 19 اپریل کو نعیم بٹ شہید کمیٹی نے رولاکوٹ ڈی سی آفس کے سامنے تاریخی دھرنا دیا جس کے نتجے میں ریاستی تاریخ میں پہلی دفعہ دو ہفتے تک مجرم ڈی سی اور ایس پی اپنے دفتر میں نہیں بیٹھ سکے اور 30 مارچ 2018 کو تاریخی ہڑتال کے نتجے میں پورا پونچھ بند تھا نعیم بٹ شہید کمیٹی کے مطالبات جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ کو شائع کیا جاے اور قاتل ڈی سی اور ایس پی کے خلاف 302 کی ایف آیی آر درج کر کے کاروائی کی جاے بالاخر سہولت کار حکومت نے اس تاریخی اجتجاج اور دھرنے کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور 5 مئی کو نعیم بٹ شہید کمیٹی کے شرکاء دھرنا جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ قاتل ڈی سی ایس پی کے خلاف 302 کی ایف ائی آر لے کر اٹھے اس دھرنے کی کامیابی میں تمام آذادی پسندتنظمیوں جے کےایل ایف نیپ این ایس ایف انجمن تاجران وکلاء برادری صحافیوں نعیم بٹ شہید کے ورثاء کا کلیدی کردار رہا جو کہ اس تحریک اور تاریخ کا حصہ ھے لیکن کیا کہنے اس غلامانہ نظام کے ؟ 302 کی ایف آئی آر کے خلاف قاتل مجرموں نے آذادکشمیر ہائی کوڑٹ میں اکیوشمنٹ کے لیے درخواست دائر کردی .اس نو آبادیاتی عدالتی کاروائی میں ایک تاریخ پر راقم بھی پیش ھوا جہاں نعیم بٹ شیہد کے وکیل بیرسٹر ہمایوں نواز صاحب نعیم بٹ شیہد کے والد محترم شریف بٹ صاحب نعیم بٹ شہید کے بھائی نثار بٹ اور جے کےایل ایف کی طرف قائم کردہ لیگل کمیٹی کے سربراہ ایس ایم ابرہیم ایڈوکیٹ کی موجودگی میں جب موجودہ چیف جسٹس راجہ صداقت صاحب کے سامنے عدالت اور عدالتی نظام کا پوسٹ کیا کہ 302 کے مجرموں کو پوری حکومت اور نایدیدہ قوتوں کی سرپرستی حاصل ھے اور شیہد کا بوڑھا باپ انصاف کے لیے عدالتوں کے دھکے کھا رہا ھے جج صاحب پہلے ایف آیئ ار اور جوڈیشنل کمیشن کے لیے دھرنا دیناپڑا کیا اب ہائی کورٹ کے سامنے اب انصاف کے لیے بھی دھرنا دینا پڑے گا ؟ جس پر جسٹس راجہ صداقت صاحب نے کہا کہ اپ وکیل ھو کر عدالت کو دھمکی دے رھے ھیں میں نے جب جواب دیا کہ when injustice become law than Resistanc become duty … and delyed justice is denied justice… عام شہری پر 302 کی ایف ائی آر ھو تو پورے خاندان کو گرفتار کر کے لے آتے ھیں جب کے 302 کے مجرم ڈی سی اور ایس پی کو مکمل پرٹوکول اور پرومیشن مل رھی ھے جب کہ ان کے خلاف 290 صفحات پر مشتمل جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ ھی کافی ھے جس پر انہوں نے درخواست سپریم کورٹ بیھج دی جہاں سے دوسری پیشی پر خارج ھو گئی…نعیم بٹ شہید کا کیس آج بھی عدالت میں چل رہا ھے ڈی آیئ جی چودھری سجاد کی سربراہی میں ملزمان کے خلاف انکوائری کمیٹی بھی قائم ھے لیکن ملزمان حکومتی سربراہی میں ترقیاب بھی ھو رھے ھیں اور مراعات سے بھی مستفید ھو رھے ھیں ….جبکہ نعیم بٹ شہیدکے ورثاء قاتلوں کی سزا کے منتظر ھیں…یہاں یہ سوالات جنم دے رھے ھیں کہ ڈی سی اور ایس پی کے پچھے کون سی قوتیں ھیں ؟ جن کے سامنے اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر صاحب بھی بے بس تھے اور عدالتیں بھی بے بس ھیں ؟…نعیم بٹ شہید کے قاتلوں کو سزا ملنا اس لیے بھی ضروری ھے تاکہ ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کو عوام کی طاقت کا علم ھو سکے تاکہ مستقبل میں کسی اور نعیم بٹ کو شہید نہ کیا جا سکے ہمیں اس غلامانہ عدالتی نظام کینگرو کورٹس کے خلاف بھی مزاحمتی کردار ادا کرنا ھو گا….نعیم بٹ شیہد کے سلسلے میں کسی قسم کی مصلحت اور بذدلی تاریخی جرم ھو گا ..تاریخ شاہد ھے کہ بذدل لوگ دنیا کے خوف سے اپنے فیصلے بدلتے ھیں جبکہ دلیر لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدلتے ھیں بقول.مقبول بٹ شہید کے ..ہم دشمن کے اعصاب پر سوار رھیں گے