وہ بارہمولہ پہنچ چکے تھے لیکن ناجانے کیوں ان کے چلتے قدم تھم گئے اور سرینگر نہ پہنچ سکے حالانکہ بارہمولہ سے سرینگر چند گھنٹوں کی مسافت پر تھا لیکن وہ کئی روز وہاں مصروف رہے یہاں تک کہ انڈین آرمی سرینگر ائرپورٹ پر پہنچنا شروع ہوگئی اور ان کے پیدل فوج بھی پٹھان کوٹ والے زمینی راستے سے جموں میں داخل ہوگئی اور یوں ایک مخصوص حد تک پہنچ کر سیزفائرہوگیا یوں لگتا ہے یہ کوئی ڈرامہ اپنے سکرپٹ کے مطابق فلمایا گیا ہو ۔۔۔ورنہ ایک ریگولر آرمی مسلح جتھوں کو چکوٹھی تک دھکیل سکتی ہے تو کیا انہیں دریائے جہلم سے پاربھی تو کر سکتی تھی ۔۔۔؟بہرحال اگر یہ سکرپٹ بھی رہا ہو تو رائٹر یہ بھول گیاکہ جب جب یہ کہانی زیربحث آئے گی تو قارئین کرام ضرور سوچیں گے کہ اگر ا ٓپ کو اس ملک کا حصول مطلوب تھا یا آزادی تو ان جتھوں کو مظفرآباد میں لوٹ مار پر لگائے رکھنے کے بجائے پٹھان کوٹ اور سرینگر پہنچاتے ۔کیوں کہ مخالف فریق نے انہیں دوراستوں سے ریاست میں داخل ہونا تھا ۔اور اگر دوسرا فریق چکوٹھی و مدارپور تک آسکتا تھا توپھر ہولاڑ اور پتن کتنا دور تھا؟ لگتا ہے ان میں سے ایک کو بھی پوری ریاست کی ضرورت نہ تھی ۔چہ جائیکہ اس وقت دونوں ممالک کی آرمی فقط ایک انگریزسپریم کمانڈر کے زیرکنٹرول تھی اور نچلی سطح پر سابق انگریز کورکمانڈرز ہی سنبھال رہے تھے۔یعنی وہ آرمی چیف کسی صورت اپنے کورکمانڈرز کو ایک دوسرے کیخلاف صف آراء نہیں کرسکتا تھا،اس لئے مسئلہ جموںکشمیر کو سمجھنے کے لئے اس بات کو مدنظررکھنا ضروری ہے کہ متحدہ ہندوستان کی 565نیم خودمختار ریاستوں میں سے درجنوں ایسی تھیں جنہوں نے دوممالک کے ساتھ الحاق کے معائدے کئے اور کئی ایک نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا لیکن آج نہ کوئی الحاق باقی ہے نہ خودمختار۔الحاق کے وہ سب معائدے ہوامیں تحلیل ہو گئے دونوں ممالک نے تمام ریاستوں کا جبراً انضمام کرلیا فقط ریاست جموں کشمیر ہے جس کا نام اورتنازعہ ابھی تک باقی ہے ۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کی جموں کشمیربابت پالیسی یا طریقہ واردات سمجھنا کافی آسان ہوجاتا ہے کہ بھارت پہلے ریاستی حکمراں پر سیاسی دبائو سے اسے دستاویز الحاق پر دستخط کے لئے مجبور کرتا ہے اور پھر دستخط کے فوری بعد دوسرے روز آرمی کوباضابطہ ریاست میں بھیجتا ہے لیکن پوری ریاست پر قبضہ کی کوشش کے بجائے مخصوص علاقے پر قبضہ کیبعد مسئلہ کو یونائٹڈ نیشن میں لے جاتا ہے، دوسری جانب پاکستان کے لئے ریاست جموں کشمیر میں ا سقدر سیاسی و عوامی حمائت موجود ہے کہ اگر وہ اس پر سنجیدہ حکمت عملی اختیار کرتا تو 27اکتوبر سے بہت پہلے اسے پاکستان کا حصہ بناسکتا تھا ۔
دونوں ممالک کی درمیاں 47کیبعد65/71اور 99میں جنگیں ہوچکی ہیں اس طرح کی مہیم جوئی کے باوجود مسئلہ جموں کشمیرجوں کا توں ہے اس پر کوئی اثر نہ پڑھا البتہ مذید پیچیدہ ہواہے ۔ماضی میں کئی مواقع ایسے بھی آئے کہ قضیہ جموں کشمیر دائمی طور پر حل ہوجاتا لیکن بادی النظر میں لگتا ہے کہ اسے باقی رکھنے کی دانستہ کوشش کی جاتی رہی ہے ۔یقینا اس قضیہ کے باقی رہنے کے اسباب ووجوہات تقسیم ہند سے ا ور اقتدار کے ایوانوں سے جڑی ہیں ۔تقسیم ہند کے وقت ہندومسلم قیادتوں نے مذہبی سیاست کی بنیادپر پر عوامی حمائت حاصل کرنے کی ایم بھیانک روائت کی بنیاد رکھی اور صدیوں سے اکٹھے رہنے والوں کو تقسیم کرکے ان میں نفرتوں کے بیج بوئے ،ہندومسلم فسادات کروائے اور نفرتوں کی اس فصل میںانسانی خون کی کھاد ڈالی انسانیت کے سینے میں لگے زخموں کومذید گہراکیا ۔یہ نفرتیں اسقدر گہری ہوئیں ہیں کہ تقسیم کے پچہتر بر س بعد بھی اسے دونوں ممالک میں اسے اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔بھارت نے 47کے قتل عام تقسیم ہندوستان اور ہجرت کا زمہ دار پاکستان کو قرار دے کر کشمیر میں قبضہ اور پھر پاکستان کو ریگستان میں بدل کر اس کا بدلہ لینا اور اسے دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بننے پر مجبور کرنے کی روش اپنائی کہ بھارت نے فقط ان علاقوں پر قبضہ کو فوقیت دی جوپانی کا منمبہ ہیں دوسری جانب پاکستانی قیادت نے بھارت کو اسلام کا کٹر دشمن قرار دیکرمظلوم کشمیریوں کی آزادی کا نعرہ بلند کیا خیرخواہی کا دعوی توکیا لیکن سب دعوے حصول اقتدار تک ہی محدود رہے درپردہ انہوں نے اور ہی کھیل جاری رکھا اس نے ہمیشہ اپنی مغربی سرحدوں اور اسلام آباد پر توجہ مرکوز رکھنے کے لئے جموں کشمیر کو انڈین فورسز مصروف رکھنے کے لئے استعمال کیا تاکہ فوجی توازن برقرا ررہے ۔البتہ قرئین قیاس ہے کہ دونوں ممالک نے کبھی مسئلہ کاحل چاہا ہی نہیں ۔بلکہ اس سرزمین اور اس کے باسیوں کو اپنے اپنے مفادات کے لئے تختہ مشق بنائے رکھا اور یکم جنوری 1949میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیرخارجہ ظفراللہ خان کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے حق خودارادیت کو دونوں ممالک سے الحاق تک محدود کرنے کی قرارداد پاس کروانے سے ہی دونوں ممالک غیرمحسوس انداز میں ریاست جموں کشمیرکی تقسیم پر متفق نہیں بلکہ فیصلہ کر چکے تھے رہی سہی کسرمعائدہ کراچی نے پوری کرلی اور اس کے بعد سے آج تک جوکچھ بھی ہوا وہ محض ٹوپی ڈرامہ تھا اور اب شائد دنیا کے بدلتے حالات بڑھتی ہوئی آبادی اور کمزور معیشت کے ہاتھوں مجبورہوئے ہیں کہ اس ڈرامے کو ختم کردیں اور اس ریاست کو بانٹ لیں ۔