گلوبل ویلج ۔۔۔۔۔تحریر :راجہ مدثر ارشاد۔۔۔۔موجودہ سیاسی صورتحال

ملک میں تلاطم خیز سیاسی حالات جاری ہیں عمران خان کی حکومت عدم اعتماد سے اختیتام پزیر ہوچکی متحدہ اپوزیشن اس کامیابی کو جمہوریت کی فتح سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف اور عمران خان کے خیرخواہ اس سارے عمل کے تانے بانے عالمی سامراج امریکہ بہادر سے جوڑ کر اسے عالمی سازش کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں برکیف ملک کے اندر ایک ترش سیاسی ماحول ہے جیسے ہم گشیدگی سے کچھ آگے کا نام دے سکیں تو کوہی امر مانع نہ ہوگا بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے اپنی برق رفتار پروازوں کا دور شروع کر دیا ہے اس حوالے انکے مخالفین بھی انکی مستعدی کے قاہل ہیں گو کہ انکی اتبداہی تقریر خاصی مثبت تھی اور کسی بھی زاویے سے اس میں کسی منتقم مزاجی کا کوہی شاہبہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن خالات اور کاریگروں کے طیور بتا رہے ہیں کہ آنے والا وقت میں تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماوں کے لیے ہوا کے تازہ جھونکوں کی کوہی امید نظر نہیں آتی تندوتیز لو چلنے کے امکانات غالب ہیں جو بچی کچی فصل کو تباہ کر خار بنانےکے لیے کافی ہو گی پرانے مردہ اور قرتبے اکھاڑے جاہیں گے تاریخ کا وہ تلخ آموختہ تحریک انصاف کی قیادت کو ازبر کرنا ہو گا اور وہ حاصل یہی ہے کہ ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں پاکستان کی سیاست میں جس کسی نے بھی ہاتھی کے پاوں سے آگے چلنے کی جسارت کی وہ اپاہج ہی پایا گیا اب یہ تحریک انصاف کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کیسے ممکن بناتے ہیں فلحال عمران خان جارہانہ موڈ میں ہیں انکے زخم مندمل ہونے میں وقت لگے گا وہ نوازشریف کی مانند اپنا مقدمہ لے کر عوام کے سامنے جا رہے ہیں آصف علی زرداری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بادشاہ گر ثابت ہوے ہیں انھوں نے اس بار پاوں پکی مٹی پر رکھا اور اپوزیشن کی ناہو کو کنارے لگانے میں کامیاب قرار پاے صرف یہی نہیں بلکے پیپلزپارٹی اگلی باری کو اپنے قریب تر لے آے ہیں بس کچھ ماہ کے بعد انکی باری شروع ہو جاے گی مولانا نے ثابت کیا کہ انکے پاس جو سڑیٹ پاور ہے وہ ملک کی سب سے بڑی سڑیٹ پاور ہے ممکن ہے اس سے کوہی اختلاف کرےلیکن میرے نزدیک یہی سچ ہے کہ پاکستان کے ہر گلی محلے میں انکے ورکر کے مدمقابل کسی کے پاس ورکر اور ولنٹیرزنہیں ہیں جو ہماوقت بھوک پیاس اور لاٹھی سرکار کے سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں یہی وہ ہتھیار ہے جسکی بدولت ملک کی طاقتور اشرافیہ مولانا کے متھے لگنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے اقتدار سے علحدگی کے بعد عمران خان اور انکے کارکن خاصے ناراض نظر آرہے ہیں لیکن ساتھ پرجوش بھی ہیں انھوں نے احتجاجی کال دے رکھی ہے اور اپنے تیار کردہ پلان کے تحت وہ نہی حکومت اور اس کے سرپرستوں کے خلاف جلسے بھی کر رہے ہیں عمران خان کی اپنے کرم فرماہوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہ پہلے سی نہیں اگلے تیس دنوں میں الیکشن کمیشن میں انکے فارن فانڈنگ کیس کا فیصلہ بھی ہو جاے گا جسکے بعد تحریک انصاف مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے اسمبلی سے اجتماعی استعفے بھی سیاسی طور پر ان کے لیے نقصان دے ہوں گے تا حال وہ مزاحمتی حکمت عملی پر ہی کاربند نظر آ رہے ہیں بڑے بڑے جلسے کر کے اپنے خلاف ہونی والی مبینہ عالمی سازش کو عوام کے سامنے آشکار کر رہے ہیں یاد رہے ستر کی دہاہی جماعت اسلامی بھی شان اسلام کے نام دے پاکستان کے طول وعرض میں جلسے کیا کرتی تھی مگر یہ جلسے انتخابی نتاہج کو اس کے حق میں نہ بدل سکے شہباز شریف کی کابینہ آہندہ چند روز تک بن جاے گی معاشی بدحالی نہی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے پاکستانی روپے کی قدر گزشتہ چند ماہ سے مسلسل گر رہی ہے اسکو سنھبالا دینا اور شرح نمو کو مناسب سطح تک لے جانا شہباز شریف حکومت کے لیے جوے شیر سے بڑا ہےزبوں حال معیشت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ اور اوپر سے مخلوط حکومت کا مربع جو کسی وقت اپنے ایکسپاہری مدت کے قریب پہنچ سکتا ہے بہرحال مملکت پاکستان اس وقت بے شمار مساہل سے دوچار ہے سب سے بڑا مسلہ سیاسی افراتفری ہے اگر یہ سیاسی افراتفری ختم نہ ہوہی تو ملک کے بحران بڑھتے ہی جاہیں گے ملک کی جملہ سیاسی قیادت کو اپنی انا کے خول سے نکل کر ملک کے وسعی تر مفاد میں مل بیٹھنا ہو گا اور بزریعہ ڈاہلاگ مساہل کے حل کی کاوش کرنی ہوں گی ایک دوسرے کی جو بھی مسلمہ حثیت ہے اسکو تسلیم کرنا پڑا گا ملک کے اندر سیاسی جماعتوں کے مابین نظریاتی اختلاف راے جو اختلاف سے بڑھ کر ذاتی دشمنی کی حثیت اختیار کر چکی ہے اس سے معاشرے کو بچانا ہو گا سب کو مل بیٹھ کر ایک نیا سماجی معاہدہ کرنا پڑے گا ورنہ سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتیمزی بر پا سے اس کو دیکھ کر خ…