ملاوٹ ایک زہر
"گلوبل ویلج "
تحریر :راجہ مدثر ارشاد

آزادکشمیر سپریم کورٹ میں جعلی دودھ کیس کی سماعت ہوئی۔جس پر
چیف جسٹس سپریم کورٹ راجہ سعید اکرم نے سختی سے ہدایات جاری کیں کہ دو نمبر دودھ آزاد جموں و کشمیر میں لانے اور بنانے والوں کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ اس معاملہ میں کوئی تعطل برادشت نہیں کرے گی۔
سیکرٹری لائیو سٹاک ارشاد قریشی نے معزز عدالت کو بتایا کہ حکومت کو پروپوزل دیا جا چکا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں موجود 700 بے روزگار ویٹرنزی ڈاکٹرز کو مختلف بنک قرضے فراہم کریں تاکہ وہ علاقے میں مختلف جگہوں پر بھینسوں اور گائیوں کے باڑے قائم کریں۔ جو لوگ اس وقت یہ باڑے کامیابی سے چلا رہے ہیں انہیں بھی قرضے دئیے جانے کی سفارشات حکومت کو دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آزاد جموں و کشمیر میں اس وقت 15 لاکھ لیٹر دودھ کی ضرورت ہے جس کا مقامی سطح پر صرف 5 فیصد پیدا کیا جا رہا ہے۔
بحث کے دوران ذوالقرنین نقوی ایڈووکیٹ نے معزز عدالت کو بتایا کہ باوجود اس قدر سختی کے، مظفرآباد میں دودھ کی کمی محسوس نہیں کی جا رہی۔ اس وقت شہر میں مختلف ہوٹلز اور ریسٹورنٹس سینکڑوں لیٹر دودھ گاہکوں کو فراہم کر رہے ہیں جس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس دوران فریق مخالف کے وکیل نے معزز عدالت سے استدعا کی کہ انہیں لائسنس جاری کیا جائے کیونکہ ان کی مشینیں خراب ہو رہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے وکیل صاحب سے استفسار کیا کہ کون سی مشینیں خراب ہو رہی ہیں؟ جو جھاگ زیادہ بناتی ہیں یا دودھ کو سفید کرتی ہیں؟ اس پر عدالت زعفران زار بن گئی۔
جعلی دودھ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کی جس میں چیف جسٹس راجہ محمد سعید، جسٹس رضا علی خان، جسٹس خواجہ نسیم اور جسٹس یونس طاہر شامل تھے۔ سول سوسائٹی کی جانب سے راجہ امجد علی خان نے مقدمہ کی پیروی کی جبکہ حکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل مقبول وار ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ یہ ہمارے معاشرے میں ناقص و مضر صحت اشیاء کی فراہمی اور کثرت کا ایک مختصر سا خاکہ دودھ کا ہے جو بنیادی انسانی ضرورت کا لازمی جز ہے اس کے اعداد و شمار کے حوالے سے انتہاہی تشویش ناک صورتحال ہے پاکستان بھر میں دودھ کی مجموعی پیداوار تین لاکھ ٹن ہے جبکہ مارکیٹ میں فروخت تقریباً پانچ لاکھ ٹن ہے صرف یہی نہیں پاکستان بھر میں ضروریات زندگی کی اکثریتی اجناس میں کسی نہ کسی سطح پر ملاوٹ کی بھرمار اور ملاوٹ بھی بڑی دیدہ دلیری کیساتھ سرانجام دی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آے روز نت نہے قسم کے امراض میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے کینسر ،کالا یرکان ،امراض قلب ،گردوں کے امراض کے موجب ذیادہ تر ناقص خوراک اور ملاوٹ زادہ خوراک کو قرار دیا جا رہا ہے پاکستان بھر میں آٹا ،دودھ ،جملہ مصالحہ جات ،گھی ، بچوں کے کھانے کے پاپڑ ،مشروبات حتیٰ کے گوشت تک میں ملاوٹ کی جارہی ہے غرض روزمرہ کے استعمال کی شاہد کی کوہی جنس ہو جو ملاوٹ سے پاک ہوجس قدر ملاوٹ شدہ اشیاء کی بھر مار ہے اور انکا عام پبلک استعمال کر رہی ہے اس کےبا وجود انسان زندہ ہیں تو یہ قدرت کا موجزہ ہی ہے اور بد قسمتی سے یہ مکروہ دہندہ نامور قومی سطح کے بریںنڈ کے نام پر کیا جا رہا ہے بڑے رستوران اور کاروباری یونٹ بھی اپنا ذاہقہ بڑھانے اور گاہکوں کی تسلی کی خاطر ایسے فارمولوں پر عمل پیرا ہیں جنکی بدولت ان اشیاء کے استعمال کا منطقی انجام بیماریاں اور بلاآخر قبل از وقت موت ہے یہی وجہ ہے اب اوسط عمر ہر برس کم ہوتی جا رہی ہے اس حوالے قانون سے نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں فوڈ اتھارٹی اور کولٹی کنٹرول اتھارٹی کے محکمہ جات کی فراہض سرانجام دینے کی صلاحیت ناکافی پے اولاً وہ جدید مشینری سے مرحوم ہیں اور دوسرا انکے پاس افرادی قوت کم ہے اور ساتھ میں محکمانہ بجٹ کا ایشو بھی درپیش ہے حالیہ برسوں سے صوباہی سطح پر فوڈ اتھارٹیز قاہم کی گہی ہیں وہ کسی حد تک اپنی بساط کیمطابق کوشاں بھی ہیں لیکن انکو بھی رواہتی قسم کے مساہل کا سامنا ہے افرادی قوت کی قلت کے باعث وہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینے سے قاصر ہیں مثلاً راولپنڈی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کا جو ریجنل آفس قاہم ہے اس میں تقریباً پانچ درجن کے قریب سرکاری اہلکار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور انکے ذمہ راولپنڈی ،اٹک ،چکوال،اور جہلم کے اضلاع ہیں دوسرا پاکستان بھر میں کاروبار کسی خاص اجازت کے رجسرڈ نہیں جسکی بدولت بے شمار مساہل جنم لے رہے ہیں اگر کاروبار کی رجسڑیشن کا باقاعدہ عمل ہو اور ایک پورا ریکارڈ مرتب ہو تو مضر صحت اشیاء بنانے اور فروخت کرنے والوں کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے اخلاقی گراوٹ اور دیدہ دلیری کی حد یہ ہے کہ فروخت کرنے والا واضح کرتا ہے کہ یہ چیز کوالٹی کے اعتبار سے کتنے نمبر پر ہے ان حالات میں ہمارے ملک میں ملاوٹ سے پاک معاشرے کے لیے طویل وقت درکار ہے لیکن اس کے لیے حکومتی اداروں اور عوام کا کردار بڑا اہم اور بنیادی نوعیت کا ہو گا پاکستان میں بدقسمتی سے پروڈکشن یونٹ پر چیک اینڈ بیلنس کے حوالے سے کوہی مربوط نظام نہیں ہے جس چیز کی لاگت پچاس روپے آتی ہے وہ مارکیٹ میں تیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے اس پر متعلقہ محکمہ جات کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے اور اس پر مستزاد قوانین انتہاہی کمزور ہیں ملاوٹ کے حوالے سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 272کے تحت محض چھ ماہ سزا اور تین ہزار روپے جرمانہ ہے اب کوہی گروہ ملاوٹ زادہ اشیاء کی فروخت کرے اور جس سے ہزاروں افراد کو بیماریوں لاحق ہو چکی ہوں وہ اس قانون کی بدولت چند ہفتوں میں کھلے عام گھوم رہا ہو یہ جراہم کو تقویت دینے کے مترادف ہے اس حوالے سے سخت قوانین کی اشد ضرورت ہے
دنیا بھر کےترقی یافتہ ممالک میں ہر قسم کی اشیاء کی کوالٹی کنٹرول کے حوالے سے قوانین اور ادارے قاہم ہیں جنکو حکومت وافر فنڈ جاری کرتی ہے اور وہ مستعدی سے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں یہی وجہ ہے وہاں کےعوام صحت کے مساہل اور ماحولیاتی آلودگی سے بہت حد تک پاک ہیں اور اسی وجہ سے وہاں کے عام شہری کی اوسط عمر بھی ذیادہ ہے اس حوالے سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور بلخصوص تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم کا آغاز کرنا ہو گا حکومتی اداروں کو فعال کرنا ہو گا اور عوام کو خود بھی ملاوٹ کرنے والے کاروباری اداروں اور عناصر کی حوصلہ شکنی کیساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی ماونت کرنا ہو گی