"سفرِ نیلم”

حرفِ مجروح
ثوبان افتخار راجہ

نیلم کنارے مظفرآباد سے "تاؤ بٹ” تک کا 206 کلو میٹر سفر تہہ کرتے وقت نیلم کے اُس پار اپنے تقسیم شدہ ٹکڑے پہ نظر پڑتے ساتھ ہی کئی بار میری رگوں میں خون کی روانی تیز ہو کر کہ دھڑکن بڑھاتی رہی. ایل او سی کے قریب رہ کر میں اُس پار کا ماحول محسوس کر پارہا تھا. جی چاہتا کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور اغیار کے زیرِ قبضہ تقسیم دھرتی ایک ہو جائے. ہمیں آر پار جانے کی آذادی ہو، اپنوں سے ملنے کی آذادی ہو، اپنے فیصلے کرنے کی آذادی ہو، اپنے وسائل استعمال کرنے کی آذادی ہو.

جنت سے مشابہت رکھتے زمین کے ٹُکڑے پہ آر پار کھڑے غیر ملکی سنتریوں کے پیرے کی نحوست سے فضا میں پھیلی ہواؤں میں مایوسی میرے لئیے حیران کن نہ تھیں. حیرانگی اور ترس ان مقامی مُفلس لوگوں پہ تھا جو توپوں اور گولوں کے سائے تلے زندگیاں گزرانے پہ مجبور تھے.

مجھ پہ خوشی اور غم دونوں کیفیات طاری تھیں. ہر لمحے کے سفر کے بعد حیرت انگیز طور پہ بدلتے زمینی مناظر، مقبوضہ کشمیر کو قریب سے دیکھ کر خوش ہوتا تو مقامی لوگوں کی بدحالی، خستہ حال انفراسٹرکچر اور مقبوضہ حصہ میں جانے کی خواہش دل غمزدہ کرتی رہی.

خیر ملے جلے احساسات کے ساتھ کبھی پتھریلی تو کبھی ہموار، کبھی سنگلاخ، تو کہیں سبزہ زار، کہیں برف سے ڈھکی چوٹیوں اور کہیں انواع اقسام کے جنگلات کے ساتھ یہ "یارانِ حیات” کا دوسرا سفر نیلم تھا

بھرپور منصوبہ بندی اور انتظامات کے ساتھ ہمارے سفر کی شروعات آبائی گاؤں کٹکیر سے ہوئی تھی. پلان کے مطابق ہم نے پہلا پڑاؤ نیلم کے صدر مقام”اٹھمقام” سے 9 کلومیٹر کے مسافت پہ ایل او سی کے ساتھ واقعہ "کیرن” میں ڈالنا تھا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا. ہمارے گروپ میں شامل اچانک ایک بائیک خراب ہو جانے کے باعث پہلی رات مظفرآباد میں ہی گزری.

اگلی صبح سویرے ہی ہم نے رخت سفر باندھ لیا. اور "کیل” پہنچ دم لیا. ریاستی دارلحکومت "مظفرآباد” سے”دواریاں” تک پکی سڑک جبکہ اس سے کیل تک 49 کلومیٹر راستہ کچا ہے.

دورانِ سفر "شاردہ” بازار بھی آیا. مظفرآباد سے 162 کلو میٹر دشوار گزار سفر کے بعد ہم شام 7 بجے اڑنگ کیل پہنچ گئے. اڑنگ کیل پہنچنے کے لئیے کیل اور اڑنگ کیل دونوں پہاڑوں کے درمیان دریا پہ لفٹ لگائی گئی ہے.

” اڑنگ کیل” زمین پہ موجود چند منفرد ترین مقامات میں سے ایک ہے. ہموار میدان، دیودار کا جنگل اور برف سے ڈھکی سنگلاخ پہاڑ کی چوٹی قدرت کے حسین ترین امتزاج ہے. لیکن مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث بے جا گیسٹ ہاوسز کی تعمیرات اس کی خوبصورتی کو مٹا رہی ہے.
اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو آنے والے چند سالوں میں یہ تعمیرات اڑنگ کیل کی خوبصورتی کو ختم کر دیں گی.

یہوں تو نیلم سارے کا سارا ہی خوبصورت گویا جنت کا ایک ٹکڑا ہے. لیکن مہم جوئی والے اصل سفر کا آغاز شاردہ سے ہوتا ہے. کچی سڑک اونچے ترچھے پہاڑ، نیچے ٹھاٹھے مارتا نیلم گرد مٹی، کیچڑ، تنگ سڑک اُف اُف بائیک/گاڑی چلاتے وقت نہ جانے کتنی دفعہ انسان شدت سے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے.

اس سڑک کا نواز شریف حکومت سے کام جاری ہے. اربوں روپے کے فنڈز لگائے جا چکے ہیں. اور کئی ارب تعمیر مکمل کرنے کے لئیے مختص کر دیے گئے ہیں لیکن حکومتی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے مقررہ مدت میں مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی اور نہ ہی لے گی کیونکہ ابھی بھی "داواریاں” سے تاؤ بٹ تک تقریباً 93 کلو میٹر سے زائد کی تعمیر ابھی باقی ہے.

اس سے اگلے دن سفر "تاؤبٹ” تک کے سفر میں راستے میں کئی ایک خوبصورت مقامات آئے. تاؤبٹ پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا انسان کسی اور دنیا میں ہی پہنچ گیا ہے. تاؤبٹ کے لوگ بڑے ہی مہمان نواز اور خوش مزاج ہیں.
سڑک خراب ہونے کے باعث تاؤبٹ کا رخ عموماً کم سیاح کرتے ہیں. تاؤبٹ کے مقام پہ دریا کی روانی شانت ہو جاتی ہے. یہاں قدرت کی خوبصورتی اور لوگوں کی سادگی ایک ساتھ دیکھنے کو ملتی ہے. مظفرآباد سے "تاؤ بٹ” 206 کلو میٹر کے راستے میں درجنوں فوجی چھاونیاں ہیں. نیلم کا انتظامی امور کا کنٹرول برائے نام ہی سول انتظامیہ کے پاس ہے.

لکڑیوں اور بھاری بھرقم پتھروں سے بھرے "ٹرک” جگہ جگہ ملتے ہیں. یہ حکومت کی ملی بھگت سے بیرون کشمیر سمگل ہوتے ہیں. معدنیات اور جنگلات کے محکموں کے وزراء پہ ان وسائل کی خرد برد کے سکینڈلز زبان زد عام ہیں.

اس سفر کے دوران ہر چند کلومیٹر کے بعد سڑک کنارے کھڑے ہاتھ پھیلائے بچے 10 روپے کی فرمائش کرتے نظر آتے جن کا سلسلہ شاردہ سے آگے اور ذیادہ ہو جاتا ہے. سڑک کنارے کھڑے یہ بچے غیر ریاستی/علاقائی افراد کو بہت برا تاثر دیتے ہیں. اس عمل سے پوری نسل تباہ ہورہی ہے. ان کے والدین کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی اولادیں کس دلدل میں دھس رہی ہے. اس عمر میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے "سائیکالوجیکلی” اثرات زندگی بھر رہتے ہیں.

اس صورتحال کی ذمہ دار سیاسی لیڈر شپ ہے جو اپنے چھوٹے مفادات کے لئیے پوری قوم کا مستقبل ڈبو رہے ہیں.
نیلم کے سیاسی و سماجی ذمہ داران کو چاہیے کہ جنگلات کے کٹاؤ، نیلم کے وسائل کی لوٹ کسوٹ، اہلیانِ نیلم کے تعلیم و تربیت اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئیے زبانی اعلانات سے بالاتر ہو کر قومی بنیادوں پہ کردار ادا کریں. تا کہ باہر سے آنے والے بچوں کے پھیلے ہاتھوں کے بجائے کچھ اچھی یادیں ساتھ لیتے جائیں