"جنگل جلانے والے "
"گلوبل ویلج "
تحریر:راجہ مدثر ارشاد

آزادکشمیر بھر کے جنگلات میں آے روز بڑھتے ہوے آتشزدگی کےواقعات رونماں ہو رہے ہیں جس سے جنگلی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں لاکھوں کی تعداد میں نومولود درخت اور ہزاروں پرندے آگ کی بدولت بھسم اور خاکستر ہو رہے ہیں نایاب پرندوں کی نسل کشی ہو رہی ہے لیکن بدقسمتی سے محکمہ جنگلات،واہلڈ لاہف اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جنگلات میں آتش زدگی کے ان واقعات پر کوہی جاندار کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں سزا جزا کے قانون تو موجود ہیں مگر ان قوانین کی عملداری کے حوالے سے مجاز اتھارٹیز کی خاموشی لحمہ فکریہ ہے اور یہی خاموشی ہی ہے کہ آج تک جنگل کو آگ لگانے والے مافیا کا کوہی کارندہ قانون کی گرفت میں نہ آ سکا آخر کیا وجہ ہے آگ کیوں کر لگتی ہے؟ ضلع باغ کی تحصیل دھیرکوٹ میں آے روز جنگل جلاے جانے کے واقعات رونماں ہو رہے ہیں یونین کونسل چوڑ اور ملوٹ میں گزشتہ دو ہفتوں میں جنگل جلاے جانے کے واقعات رونماں ہوے مگر نہ تو محکمہ جنگلات نے آگ بجانے میں کوہی کردار ادا کیا اور نہ ہی ان واقعات کی پشت پناہی کرنے والے کرداروں کا کوہی پتہ چل سکا یہی وجہ ہے کے ٹمبر مافیا دن دھاڑے اپنی واردات ڈالتا ہے مگر محکمہ جنگلات کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اسی بدولت جب بھی اسطرح کے واقعات رونماں ہوے ہیں تو عوام محکمہ جنگلات کی کارگردگی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں؟ اور آج تک محکمہ جنگلات ان سوالات کا کوہی موثر اور تسلی بخش جواب نہیں دے سکا اس ضمن میں جہاں محکمہ جنگلات کی غفلت اور نااہلی ہے وہی پر واہلڈ لاہف کی کارگردگی بھی سوالیہ نشان ہے ؟ ضرورت اس امر کی ہے جنگل جلاو مافیا کو کفیرکردار تک پہچایا جاے ورنہ مستقبل میں ہم شدید موسمی تغیرات کا شکارہوں گے اور آج کے جنگل کٹاو اور جنگل جلاو کی قیمت ہمارے نسلوں کو چکانا پڑے گی
ایک دور تھا جب آزاد خطے بھر میں جنگلات کی کثرت تھی نجی سطح پر بھی بانشدگان ریاست نے اپنے جنگلات پال رکھے تھے مگر اس کے بعد محکمہ اکلاس قاہم ہوا اور پھر نیلم ویلی کے ہزاروں سال پرانے نایاب اور قیمتی درخت آرے کی نظر ہوے اور نجی جنگلات بھی دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ کی زینت بن گے پہلے پہل گھروں کی تعمیر کے لیے درختوں کی منظوری عمل میں لاہی جانے لگی بعد ازاں ٹمبر مافیا نے اپنے رنگ دیکھانے شروع کیے اور پھر جنگلات نہ ہوے بلکے گاجر مولی کے کھیت کے مصداق جنگلات کی کٹاہی کا دور شروع ہوا جو ہنوز جاری و ساری ہے نہ کوہی سوال کرنے والا اور نہ کسی سرکاری اہلکار کو جواب دہی کی کوہی فکر خانہ پوری کے لیے سال چھ ماہ میں کوہی دو چار کیس بنا دہیے اس کے بعد الامان الحفیظ مضاہقہ خیز بات تو یہ ہے ایک طرف محکمہ جنگلات مختلف پروجیکٹ کے نام پر کروڑوں روپے سرکار سے وصول رہا ہے اور دوسری جانب ٹمبر مافیا کا زور اور جنگلات میں آگ لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے میں نے اپنی یاداشت میں آج تک کسی جنگل جلانے والے کو سزا ہوتے اور مجرم قرار دینے کا نہیں سنا اور جیسے حالات چل رہے ہیں شاہد مستقبل میں بھی ایسا نہ ہو ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ آزاد کشمیر بھر میں اگر سالانہ ایک لاکھ مکعب فٹ تعمیراتی لکڑی کی منظوری ہورہی ہے تو استعمال پانچ لاکھ مکعب فٹ ہے اب یہ زاہد حصہ لکڑی فرشتے تو مارکیٹ میں لاتے نہیں ہیں اسی معاشرے میں ہی کہیں کچھ ادل بدل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے محکمہ جنگلات سے وابستہ سرکاری بابو صاحبان کی آمدن اور اثاثوں میں واصح فرق ہے مگر اس سماج میں کنگا الٹی بہتی ہے کسی کو کانوں خبر نہیں ہوتی ہے اور سب کچھ ہو جاتا ہےبلاوجہ کوہی اپنے گھر کا کوڑا نہیں جلاتا اور جنگل جلانے کی مشقت کوہی کیونکر کرے گا ؟یہی وہ سوالات ہیں جو عوام مدتوں سے پوچھتے آے ہیں مگر کوہی ٹھوس اور معقول جواب نہ ملا ہے نہ ملنے کی کوہی امید ہے ایک ڈوگرہ دور تھا جب جنگل میں دیا سلاہی لے جانے جرم سمجھا جاتا تھا اور درخت کاٹنے کی اجازت جوے شیر لانے کے مترادف تھا اور ایک آج کا دور ہے کہ جنگلات جل کر خاکستر ہو جاتا ہے جنگل کی لکڑی دوسرے ضلعے اور صوبے میں پہنچ جاتی ہے مگر ہمارے محکمہ جنگلات کے سیکنڑوں اہلکاروں کو خبر نہیں ہوتی قانون موجود ہے آزادجموں کشمیر فاریسٹ ریگولیشن ایکٹ 1930ترمیمی2017 کی دفعہ(6iii)کی روح سے ایک سال قید +جرمانہ لیکن سزا شاہد ناکافی ہے اور آج تک نہ جنگل کو آگ لگانے والا مجرم گرفت میں آیا اور نہ ہی کوہی سزا وار قرار دیا گیا یہ عمل ہر دو صورتوں میں محکمہ جنگلات کے ارباب اختیار کی ناکامی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ضلع پونچھ ہجیرہ میں بھی جنگلات کو جلانے کے واقعات رونماں ہوے ہیں جسکے بعد نامزدگی کی…