بیس نشستوں کا محتاج تخت لاہور ۔۔۔ تحریر: جبار چودھری

پنجاب کے سنگھاسن پرٹِکے رہنے کے لیے حمزہ شہبازکوکم از کم بیس میں سے نو سیٹیں جتنا لازمی ہوگئی ہیں ورنہ انہیں دوبارہ اپوزیشن لیڈر کی کرسی پرآنا پڑجائے گا یہ بھی ممکن ہے کہ نوبت ملک میں عام انتخابات تک چلی جائے۔ پی ٹی آئی کو لاہور کے تخت پر پرویز الٰہی کو بٹھانے کے لیے کم از کم پندرہ سیٹوں پر کامیابی لازمی حاصل کرنی پڑے گی۔ دونوں اطراف کے لیے ٹاسک بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ ویسے یہ اپنی نوعیت کا پہلا ضمنی الیکشن ہے جس کی حیثیت عام انتخابات جیسی بن گئی ہے۔عام انتخابات میں جو پارٹی جیتتی ہے وہ حکومت بناتی ہے اب ان بیس حلقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے کہ جو پارٹی جیتے گی وہی تخت لاہورکی وارث کہلائے گی۔ گویا تخت لاہور اب ان بیس ضمنی سیٹوں کا محتاج بن گیاہے۔
ضمنی الیکشن کے لیے عام تاثر تویہی تھا کہ جس کی حکومت ہوتی ہے وہ ضمنی الیکشن جیت جاتا ہے ووٹر ٹرن آؤٹ بھی زیادہ نہیں رہتا کہ لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہوتی ہے کہ اس ایک آدھ سیٹ سے کیا فرق پڑے گا لیکن یہ روایت اور تاثربھی پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ہی زائل ہوگیا کہ ان کی ملک اور اس صوبے میں حکومت ہوتے ہوئے بھی ضمنی الیکشنز میں ہار ہی حصے آئی ۔ پنجاب میں بارہ یا چودہ جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے تین سالوں کے دوران ان میں سے صرف ایک سیالکوٹ کی صوبائی نشست پی ٹی آئی کے حصے آئی باقی سارے انتخابات میں فتح ن لیگ کی ہوئی۔ پی ٹی آئی نے حکومت کا استعمال کرنے کی کوشش کی تو ڈسکہ میں وہ شرمندگی ہوئی کہ ڈسکہ الیکشن دھاندلی کا ایک استعارہ ہی بن گیا۔
ضمنی انتخابات سترہ جولائی کو ہوں گے ان میں اب دس بارہ دن ہی باقی بچے ہیں اس دوران عید بھی آئے گی ۔ ان انتخابات کے لیے انتخابی مہم زوروں پر ہے ۔پی ٹی آئی کے امیدوار اپنے طورپر مہم چلارہے ہیں کیونکہ عمران خان صرف ایک دن کے لیے لاہور آئے تھے اور چار گھنٹوں میں چاروں حلقوں میں حاضری دے کر واپس بنی گالہ جامقیم ہوئے ۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت میں شاہ محمود مصروف ہیں کیونکہ ان کااپنا بیٹا ملتان سے الیکشن لڑرہا ہے ۔ محمودالرشید لاہور میں اس لیے مصروف ہیں کہ انہوں نے اپنے داماد کے لیے ٹکٹ حاصل کرلیا ہے جبکہ اعجاز چودھری ایک بار پھر اپنے بیٹے کولانچ کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ ٹکٹ نہیں حاصل کرسکے۔ جس حلقے میں وہ ٹکٹ کے خواہشمند تھے اس حلقے میں ٹکٹ کی صورتحال بھی بڑی دلچسپ رہی ۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اسٹار اظہرمشوانی ٹکٹ کے خواہشمند تھے انہوں نے کاغذات بھی جمع کروائے ۔کوشش بھی بڑی کی لیکن وہ صرف ایک کارکن تھے اور کارکن کی پہلے کب چلی ہے کسی پارٹی میں جو اب چلتی۔ عمران خان صاحب کو سوشل میڈیا پوڈکاسٹ کے لیے اظہر مشوانی یاد رہے لیکن ٹکٹ مانگنے پر وہ انہیں بھول گئے ۔ اس حلقے میں انہوں نے ایک اورکارکن عاطف چودھری کا انتخاب کیا لیکن چار دن بعد ہی ایک پیسے والی پارٹی میدان میں آگئی اورشبیرگجریہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ ان کے مقابلے میں ترین گروپ کے نذیرچوہان میدان میں ہیں اور یہ وہی حلقہ ہے یہاں ن لیگ کی شائستہ پرویز ابھی آٹھ ماہ پہلے ہی ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئی ہیں۔
عمران خان پنجاب کے باقی حلقوں میں مہم چلائیں گے یا نہیں اس پر ابھی کوئی واضح پلان نہیں ہے اور امید ہے کہ وہ کسی جگہ بھی نہیں جائیں گے کیونکہ وہ کبھی بھی آن گراؤنڈ جاکر الیکشن مہم چلانے کے قائل نہیں ہیں ان کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے یا پھر پہلے ہمیشہ ان پربھروسہ رہا جو ان کے لیے ووٹ مینج کرتے رہے ہیں اس بار شاید وہ نیوٹرل ہیں۔عمران خان ویسے بھی ان ضمنی الیکشن میں تماشا ہی دیکھ رہے ہیں کہ جیت کی صورت میں بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا کیونکہ وزیراعلیٰ اگر بنے بھی تو پرویز الہٰی بنیں گے۔
ن لیگ کی طرف سے مریم نوازانتخابی مہم کی انچارج ہیں انہوں نے گزرے تین دنوں میں لاہور کے تین حلقوں میں جلسے کیے ہیں کل انہوں نے لاہور کے علاقے ویلنشیاء میں جلسہ کیا یہاں ترین گروپ کے عون چودھری کے بھائی امین چودھری اب ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ملک ظہیرعباس کھوکھر ہیں جو عام انتخابات ہار گئے تھے تو ان کو بیت المال کا ایم ڈی لگایا گیا تھا۔ مریم نواز کے جلسوں سے فرق ضرور پڑے گا ۔ یہ انتخابات ن لیگ کے مشکل ضرورہیں لیکن جیت ناممکن بھی نہیں ہے۔ جو اس وقت ملک کے معاشی حالات ہیں اور مہنگائی کی صورتحال ہے اس میں اپنی کارکردگی پر الیکشن لڑنا اور جیت جانا کافی مشکل ٹاسک ہوگا۔ہاںایک صورت ہے جو مریم نوازکررہی ہیں کہ ان حالات کا دفاع کرنے کی بجائے عوام کو سچ بتایا جائے کہ حالات یہاں تک کیوں اور کس کی وجہ سے پہنچے ہیں اگر لوگ اس دلیل کو قبول کرلیں تو جیت ممکن ہے۔
ن لیگ کے لیے ان انتخابات میں دوبڑے چیلنج ہیں ۔ ان میں عمران خان کا سازشی بیانیہ کوئی چیلنج نہیں ہے جیسا کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ عمران خان کا بیانیہ کوئی بہت زیادہ مقبول ہوگیا ہے اور لوگ اب صرف امریکی سازشی بیانیے کو ہی ووٹ دینے کے لیے لائن میں لگ جائیں گے ۔ یہ بیانیہ اس لیے بھی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے کیونکہ ابھی دوہفتے پہلے سندھ میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں اس میں پی ٹی آئی چوتھے نمبر پر رہی ہے۔ ن لیگ کے دو بڑے چیلنج ہیں پہلا چیلنج یہ ہے کہ ان الیکشن میں ن لیگ کا مقابلہ ن لیگ کا اپنے کارکنوں اور ووٹرزسے ہے کہ ان کے سامنے وہ امیدوار ن لیگ کا ٹکٹ لیے کھڑا ہے جس کے خلاف انہوں نے تین سال پہلے ووٹ ڈالا تھا۔ وہ آزاد ارکان ہوں یا پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے ن لیگ کے لیے تو سب ان کے خلاف ہی تھے اب وہ منحرف ہوئے تو ن لیگ نے ان کو مجبوری میں اپنے ٹکٹ دیدیے ۔ گوکہ ان انتخابات میں دس ایسے امیدوار بھی ہیں جو اٹھارہ میں آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اب وہ ن لیگ کے امیدوار ہیں ۔ اس مسئلے پر کچھ حلقوں میں ن لیگ کے ووٹرزاورسپورٹرزاور سابق ٹکٹ ہولڈرزمیں کچھ بغاوت بھی سامنے آئی ہے ان میں جھنگ اور لودھراں کے حلقے شامل ہیں ۔ جھنگ میں ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈرافتخار بلوچ نے ناراض ہوکر آزادلڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کتنا نقصان پہنچاتے ہیں کہ دیکھنا پڑے گا لیکن ان کے مدمقابل فیصل حیات جبوآنہ اٹھارہ میں آزادحیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔ دوسرا حلقہ لودھراں کا ہے یہاں پی ٹی آئی نے ن لیگ کے ناراض امیدوار عامراقبال شاہ کو ٹکٹ دیدیا ہے۔ عامر اقبال کے والد نے ن لیگ کے ٹکٹ پر اس سے پہلے جہانگرین ترین کے بیٹے علی ترین کو ضمنی الیکشن میں شکست دیدی تھی ۔ وہ ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن نہ ملنے پر پی ٹی آئی سے جاملے۔ ایسی صورتحال ایک حلقے میں پی ٹی آئی کی بھی ہے ساہیوال کے حلقے پی پی دوسودومیں پی ٹی آئی کے عادل سعیدگجر نے ٹکٹ نہ دیے جانے پرآزادحیثیت میں لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
ن لیگ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج جو حقیقی چیلنج ہے وہ ہے مہنگائی کا چیلنج۔ یہی الیکشن اگرپی ٹی آئی کے دورحکومت میں ہوتے تو انہیں اس مہنگائی کا نقصان ہوتا جیسا کہ پہلے ضمنی الیکشنز میں ہواتھا اب یہ نقصان ن لیگ کو ہوسکتا ہے۔ اگر ن لیگ کے امیدوار اپنے ذاتی ووٹ بینک کو قابورکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور عام ووٹرزکو بھی یہ یقین دلانے میںکامیاب ہوتے ہیں کہ چند ماہ میں حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں اورمہنگائی کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے والی سابق عمران سرکار ہے اورووٹریہ دلیل قبول کرتے ہیں تو حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ بحرحا ل تجزیہ کار سمجھ رہے ہیں کہ بیس میں سے سات سیٹیں ایسی ہیں جن پر ن لیگ انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہے اور چار ایسی ہیں جن پر پی ٹی آئی کی جیت پکی ہے ۔ باقی نو سیٹیں ایسی ہیں جن پر جیت کے لیے کافی محنت درکار ہوگی۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بیس میں سے صرف چھ سیٹیں ایسی ہیں جن کے ایم این ایز کا تعلق ن لیگ سے ہے باقی چودہ حلقوں میں ایم این ایز پی ٹی آئی کے ہیں ۔ ان چھ میں سے چار حلقے لاہور کے اور ایک شیخوپورہ کا ہے۔ لاہور میں شائستہ پرویز ملک، ایازصادق، مبشراقبال اورخواجہ سعد رفیق کے حلقوں میں صوبائی الیکشن ہے اورشیخورپورہ سے میاں جاوید لطیف ہیں۔ اس کے علاوہ فیصل آباد میں اجمل چیمہ کا حلقہ ہے یہاں ایم این اے عاصم نذیر ہیں جو ہیں تو پی ٹی آئی کے ای این اے لیکن اب ن لیگ میں شامل ہوچکے ہیں اور اگلا الیکشن ن سے لڑیں گے اوروہ استعفیٰ نہ دینے والوں میں شامل ہیں۔اسی طرح مظفرگڑھ سے باسط سلطان بخاری بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں لیکن ان کی اہلیہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑرہی ہیں۔ میں اپنی کوئی پیش گوئی تو نہیں کررہا لیکن اتنا تجزیہ ضرورہے کہ حمزہ شہبازہی پنجاب کے سنگھاسن پربراجمان رہیں یہ امکان غالب ہے۔باقی اللہ جانے۔