تحریر : حافظ عثمان وحید فاروقی
تحریک آزادی کشمیر کے قافلے کے اولین قائد ؛ کشمیری قوم کے عظیم رہنماء ؛ مجاھداول سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم کی برسی کے موقع پر انکے آبائی گاوں غازی آباد میں 16 جولائی بروز ہفتہ سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کی میزبانی میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جسمیں آزادکشمیر کی پارلیمانی پارٹیز کے قائدین کے علاوہ دینی وسیاسی جماعتوں کے کارکنان ؛ مجاھد اول رحمہ اللہ کے عقیدت مند ؛ سابق وزراء اعظم؛ پارٹی قائدین سمیت ریاست جموں وکشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان نے شرکت کی ۔ اس موقع پر سیاسی قیادت کی شرکت کیوجہ سے دعائیہ تقریب سیاسی اجتماع کی شکل اختیار کرگئی جسمیں جہاں مرحوم کی دینی ؛سیاسی ؛ روحانی وعسکری زندگی کو خراج تحسین پیش کیا گیا وہاں بھرے اجتماع میں اسٹیج پر موجودہ لیڈر شپ نے ایک دوسرے سے بھی کئی اہم امور پر مثبت سیاسی تنقید اور بعض چیزوں میں افہام وتفہیم کی ۔سابق وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے موجودہ وزیر اعظم آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر سردار تنویر الیاس خان کے سٹیج پر تشریف رکھتے ہی روایتی انداز سے ببانگ دہل کہا ” آپ سے کہتا ہوں تیرہویں آئینی واپس لینے کے حوالے سے ساری جماعتوں سے ملکر متفقہ موقف اختیار کریں اور یاد رکھیں خدانخواستہ جو یہ کالکھ اپنے منہ پر ملے گا آزادکشمیر میں اس کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہوگا وزیر اعظم پر تنقید کی اور کہا لبریشن فرنٹ کے لوگوں کے بارے میں بھی آپ نے کچھ زیادہ ہی کہ دیا جو آپ کو نہیں کہنا چاہیے تھا آپ ملتے ہی نہیں ورنہ آپکو سمجھاتا اس پر سٹج قائدین اور مجمع نے زور دار قہمقہ لگا کر فاروق حیدر صاحب کی دلیرانہ گفتگو کی تائید کی ۔وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان صاحب کی اسلام آباد آل پارٹیز کانفرنس ؛ مظفرآباد APC اور حالیہ بجٹ اجلاس اور دیگر بعض مواقع پر نہایت سنجیدہ اور حکمت ودانائی سے بھرپور گفتگو کے بعد جن لوگوں کا ان کے بارے میں غیر تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہونے کا الزام تھا وہ دم توڑ گیا اگرچہ بذات خود انہوں نے آزادکشمیر کی سیاست میں حصہ نہیں لیا تاہم اپنے چچا سردار صغیر خان مرحوم سابق ممبر اسمبلی آزادکشمیر کی کمپین میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے جس کا ذکر انہوں نے غازی آباد اپنی گفتگو میں بھی کیا موصوف کی یہ بڑی خوبی ہے وہ نہایت بردباری اور تحمل کیساتھ اپنے خلاف تنقید سنتے ہیں مناسب اور مثبت انداز سے جواب دے کر اپنے بہترین سیاسی شعور کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔غازی آباد میں ان کی جاندار گفتگو سے لوگ بہت متاثر ہوئے راجہ فاروق حیدر صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تیرہوین ترمیم کے خاتمے میں شامل ہو کر اپنی قبر پر غداری کا کتبہ نہیں لگاسکتا گلگت بلتستان کے حقوق کا بھرپور حامی ہوں لیکن آزادکشمیر اسمبلی سے گلگت کو صوبہ بنانے کی حمایت کی قرارداد کسی صورت منظور نہیں ہونے دوں گا جسٹس ریٹائرڈ مجید ملک مرحوم کے تاریخی فیصلے کو بھی وزیر اعظم نے سراہا ۔وزیر اعظم کی گفتگو کے بعد مجاھد اول مرحوم کیلیے بخشش ومغفرت کی دعا ہوئی بعدازاں صبح سے منتظر تحریک انصاف کے کارکنوں سےAJk PM نے ملاقات کی جس میں کارکنوں نے رولنگ پارٹی ایل اے 14 کے امیدوار میجر لطیف خلیق کے متعلق بھرپور انداز سے گلے شکوے کیے جو گزشتہ کچھ دنوں سے ہر سیاسی محفل میں ان کیلیے طعنہ بن چکے تھے اورسوا سال کی کارگردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ساتھ ہی اٹھارہ ہزار ووٹر کو نظر انداز کیے جانے پر احتجاج کیاگیا حلقہ غربی باغ کی واحد یونین کونسل رنگلہ جو پی ٹی آئی نے جیت کر کنڈیڈٹ کو سپورٹ کیا تھا بجٹ میں اسے یکسر نظر انداز کیے جانے پر سئنیر رہنماوں نے نہایت دکھی دل کیساتھ شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا۔بانی رہنماء PTI راجہ شجاعت صاحب کی دعوت پر وزیر اعظم نے کارکنوں کے براہ راست گلے شکوے سنے بہت خوش دلی اور وسعت ظرفی کیساتھ انکے حل کی یقین دہانی بھی کروائی ہے جو وقت آنے پر ہی دیکھا جاسکے گا کہ اعلان کردہ منصوبہ جات کیسے تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ ملاقات میں اگرچہ تلخ ماحول بھی پیدا ہوا جس پر ناقدین کی سوشل میڈیا پر تنقید بھی جاری ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ مظلوموں کی آواز ہے جو اگر اونچی ہوبھی جائے تو اللہ جل شانہ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے جب یہ لوگ اپنی عوام کے مسائل کے حل کیلیے ہر مرتبہ رولنگ پارٹی کے کنڈیڈیٹ کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہر وزیر اعظم غازی آباد کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیتا ہے تو نتیجتا فطری ردعمل آتا ہے جو بلکل درست ہے راجہ شجاعت راجہ فہیم فاروق سردار تو صیف عباسی راجہ توصیف آصف ایڈوکیٹ نے جس جرات وبہادری سے اپنا موقف پیش کیا اس پر حلقے کے تمام لوگوں نے انہیں مبارکباد پیش کی چند جیلس لوگوں کو بھی چاہیے اچھی بات کی تائید کیا کریں ہمیں ان کے اس جرات مندانہ اقدام کی حمایت کرنا چاہیے سابق مشیر حکومت راجہ مبشر اعجاز کی سوشل میڈیا پر تحریر اس بات کی عکاس ہے انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کیلیے راجپوت برادری کے سرکردہ لوگوں سے میجر لطیف کیلیے حمایت لی اور بعد میں ایک لمحہ بھی مسائل کے حل کیلیے پیش رفت نہ کرسکے یہ ان کی بے بسی ہے یا شاطرانہ طرز سیاست !یہ تو موجودہ وقت میں سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے تاہم انہیں بھی فوٹو سیشن سے ہٹ کر اپنی ہی پارٹی میں رہتے ہوئے 18000 ووٹرز کا پہرہ دینا چاہیے ۔گزشتہ کل کی گفتگو کے بعد راجہ فہیم فاروق غربی باغ کے سیاسی افق پر نمایاں ہوچکے ہیں اور لوگوں نے ان سے سیاسی امیدیں وابستہ کرلی ہیں ان کی گفتگو نہایت سنجیدہ بلا کی متانت کیساتھ پوائنٹ ٹو پوائنٹ تھی جس میں ریاء کاری؛ عجب اور بے جا جزبات کا اظہار نہ تھا بلکے شائستہ لب ولہجے سے میجر صاحب کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے بطور پارٹی صدر سردار تنویر الیاس سے آئندہ بلدیاتی الیکشن کے لیے لائحہ عمل کا مطالبہ کیا ۔مرحوم سردار عبدالقیوم خان کی دعائیہ تقریب میں راجہ محمد فاروق حیدرخان سرادر عبدالقیوم نیازی راجہ محمد یسین چوھدری لطیف اکبر میجر ریٹائرڈ لطیف خلیق مولانا روہیل عباسی مفتی محمد نعیم ودیگر کثیر تعداد میں سیاسی قدآور شخصیات نے شرکت کی ۔اور سب نے اپنے اپنے خطابات میں بھرپور جزبات کیساتھ مجاھد اول سے وابستہ یادوں کو تازہ کیا طنزومزاح بھی چلتی رہی راجہ فاروق حیدر خان پورے پنڈال میں توجہ کا مرکز بنے رہے اس طور بھی یہ تقریب ضرور قابل تحسین رہی جس میں پہلی مرتبہ حلقہ غربی باغ کے اندر رہتے ہوئے کسی وزیر اعظم سے عوام نے براہ راست اپنی محرومیوں کی کھل کربات کی