گندم خریداری مہم اور حکومتی اقدامات ۔۔۔ رائو شکیل

گندم خریداری مہم 2018-19ءکا آغاز کیا جا چکا ہے ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے چھوٹے کسانوں کی مالی استحکام کے لئے رواں سال 130۔ ارب روپے کی مالیت سے 40 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ گندم کی سرکاری قیمت 1300 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔محکمہ خوراک کی طرف سے گندم کی سرکاری خریداری 16 اپریل سے شروع ہے ۔صوبائی حکومت نے 40 لاکھ ٹن گندم کا ٹارگٹ

حاصل کرنے کے لئے صوبہ بھر میں 382 گندم خریداری مراکز قائم کئے اور ان مراکز پر صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک گندم کی خریداری جاری ہے۔ گندم کا مقررہ ہدف حاصل کرنے اور کسانوں سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدنے کیلئے گندم خریداری مراکز پر اتوار و دیگر سرکاری چھٹی والے دن بھی خریداری جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر محکمہ خوراک نے گندم خریداری نظام کو بہتر بنانے کے لئے مؤثر حکمت عملی اپنائی۔ مزید برآں کسانوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے محکمہ خوراک کے دفاتر کمشنرز اور ڈی سی اوز کے دفاتر میں فری ہیلپ لائن کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ کاشتکاروں کے مسائل سن کر ان کا فوری ازالہ کیاجائے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں سے کو انکار نہیں ہے وہ دور اندیش، بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھنے والے اور کسان دوست وزیر اعلیٰ ہیں۔ ان کی انقلابی قیادت کئی بحرانوں پر قابو پا چکی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی جامع حکمت عملی کی بناپر گندم کا ٹارگٹ حاصل کر کے سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کی گئی۔ رواں سال بھی وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کامیاب پالیسیوں کی بناءپر گندم خریداری کا ہدف مقررہ مدت میں حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر 10 ایکڑاراضی کے مالکان کو ترجیحی بنیادوں پر باردانہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ باردانہ کے حصول کےلئے کسانوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جا چکا ہے جسے لینڈ

ریکارڈ اتھارٹی اورانفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے تصدیق کیا جا رہا ہے جبکہ تمام مراحل حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق شفاف طریقے سے مکمل کئے جا رہے ہیں۔ کاشت کاروں کو فی 100 کلو گرام پر 9 روپے ڈلیوری چارجز کی ادائیگی کی جا رہی ہے اس سا ل فی ایکڑ کاشت کاروں کو 8کی بجائے 10 بوری باردانہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ کاشتکاروں کی لسٹیں انتہائی منظم طریقے سے مرتب کی گئی ہیں جن میں کسی قسم کی غلطی سے بچنے کیلئے ان لسٹوں کو آویزاں کیا گیا تھا اگر

کسی کو کوئی اعتراض ہو تو تاکہ وہ اپنا اعتراض جمع کروا سکے ۔ اس مرتبہ کاشتکاروں کی تنظیموں کے نمائندے بھی مراکز گندم خریداری پر موجود ہوں گے تاکہ شفافیت کے ساتھ گندم خریداری کے مراحل مکمل ہو اور کسانوں کو خریداری مراکز پر کسی قسم کی پریشانی نہ ہو اور اپنا نمائندہ ہونے پر تسلی ہو سکے۔گندم خریداری مراکز پر تمام عمل کو کمپیوٹرائز کیا گیا ہے تمام کاشتکاروں کا ڈیٹا ان کے نام اور موبائل فون نمبر کے ساتھ درج کئے گئے ہیں ۔ تصدیق کےلئے کاشتکاروں کو

وزیر اعلیٰ پنجاب کی آواز میں پیغام موصول ہو گا۔ جس میں کاشتکاروں سے دریافت کیا جائے گا کہ اُنہیں باردانہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا ۔خادم اعلیٰ پنجاب کی ان کسان دوست پالیسیوں اور بہتر اقدامات کی بنا پر چھوٹے کاشتکاروں کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری افسران دفاتر میں بیٹھنے کے بجائے گندم خریداری مراکز کا معائنہ کرنے کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت کی کسان دوست پالیسی کے باعث کاشتکاروں کو انکی

محنت کا پورا معاوضہ دیا جائیگا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ۔کاشتکار ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ہمارا کاشتکار خوشحال ہو گا تو ملک ترقی کرے گا۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ ہر طرح کے موسم ہیں اور افرادی قوت افراط میں ہے لیکن آج تک ان وسائل سے صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ ہمارے ہاں گندم کی اوسط پیداوار 40 سے 30 من فی ایکڑ ہے جبکہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 80 سے 90

من فی ایکڑ ہے۔ زراعت کے شعبہ سے منسلک تمام اداروں کو گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی افرادی قوت کو مؤثر طور پر استعمال میں لائیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں جو وسائل دئیے ہیں ان سے کام لیں تو ہم ان ممالک سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔حکومت پنجاب کی ہدایت پر محکمہ خوراک گندم خریداری سے لیکر گندم محفوظ کرنے کے تمام مراحل شفاف اور میرٹ پر مکمل کر رہا ہے۔ حکومت کی کسان دوست پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر ہی ہمارے ملک کا کسان خوشحال ہو سکتا ہے ۔ کاشتکار خوشحال ہوگا تو ملک ترقی کریگااور وہ دن دور نہیں جب ہم زراعت میں خود کفیل ہونگے اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونگے۔