مقامی حکومتیں

تحریر طاہر اقبال خان

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اور وزیراعظم سردار تنویرالیاس کی ذاتی دلچسپی کو دیکھتے ھوہےاب یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ھے کہ اکتوبر کے مہینے میں آزادکشمیر میں بلدیاتی اانتخابات کا انعقاد ھو جاہے گا۔31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقیناً پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی اور اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اپنے قاہد عمران خان کے ویژن کی بھی عکاس ھو گی۔
مقامی حکومت عوامی انتظامیہ کی اک قسم ہے جو اکثریت پر مبنی ہوتی ہے اور کسی ملک کی حکومت کا نچلا ترین حصہ ہوتی ہے۔ لفظ "مقامی” اسے مرکزی سے جدا کرتا ہے جو بادشاہی ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت ملک کے اداروں کا دوسرے ممالک سے لین دین کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ مقامی حکومت، حکومتِ بالا کے بنائے قوانین یا احکام کے احاطے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرتی ہے۔ وفاقی ممالک میں مقامی حکومت عام طور پر تیسرے (یا کبھی چوتھے) دھارے پر ہوتی ہے۔ آزادکشمیر میں مقامی حکومت، مرکزی حکومت کے بعد، دوسرے دھارے پر ہوتی ہے۔ عرف عام میں اسے بلدیاتی حکومت کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہروں یا بلدیات کی سطح پر ہوتی ہے۔ مقامی حکومت کی دو اقسام ہیں:

۱۔شہری حدود : بلدیاتی انتظامیہ
۲۔دیہی حدود: (یونین کونسل) انتظامیہ

ایک طرف مقامی حکومتوں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن بہت بڑے وقفے کیوجہ سے عوام کی ایک بڑی کھیپ عموما” نوجوانان اور خصوصاً سیاسی کارکنان بھی مقامی حکومتوں کے امیدوار کے موزوں انتخاب سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے ہیں ۔اس سے قبل آزادکشمیر میں صدارتی نظام کے تحت بی۔ڈی ممبرز کے انتخابات کہنے کو اگرچہ مقامی حکومتوں کے الیکشنز تھے لیکن ان کا بنیادی مقصد صدر کے انتخاب میں بطور "الیکٹورل کالج” کا تھا جس کی وجہ سے یہ مقامی حکومت کے بجائے ریاستی سطح پر بپا ہونے والی سیاست کا حصہ بنے رہے۔ اس لیے یہ انتخابات خاطرخواہ نتاہج نہ حاصل کر سکے۔آمرانہ نظام کے تحت ابتداہی مقامی حکومتوں کے انتخابات 1979 اور 1983 جبکہ پارلیمانی نظام کے تحت ریاست آزاد جموں و کشمیر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات 1987اور 1991 میں هو چکے ہیں۔ لیکن شومئ قسمت سے یہ انتخابات ٹبرداری،براری ازم، علاقائیت اور دیگر عصبیتوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنا جمہوری حسن کھو گیۓ جس کی وجہ سے ھمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ھوا اور آمرانہ رویوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔
مقامی حکومتوں کے فوائد کی اگر بات کریں تو معاشرے اور ملک کی ترقی کے لیے درج ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں.
۱- باخبر،باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا معاشرہ قاہم ھو سکتا ھے۔
۲۔ترقیاتی اور تعمیراتی کام ترجیحی بنیادوں پر کیے جاتے ھیں جس سے عوام اور علاقے میں طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوتا ہے۔
۳۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بن جاتا ھے کیونکہ ان کا منتخب نماہندہ ھر وقت ان۔کے ساتھ موجود ہوتاہے۔
۴۔حکومت کی طرف سے کیے جانے والے کاموں میں شفافیت اور احتساب آسان ہو جاتا ھے۔کوہئ بھی شخص یا پارٹی اصل معنوں میں عوامی احتساب کا سامنا کرتی ھے۔
۵۔ آزادی اور جمہوریت اصل معنوں میں پروان چڑھتی ھے۔کوہئ بھی شخص یا پارٹی عوام کو دھونس دھاندلی یا ظلم و جبر سے زیرنگیں نہیں کر سکتا۔
گو کہ یہ تمام فواہد مقامی حکومتوں سے حاصل کیے جاسکتے ھیں مگر اس کے لیےعوام کا جمہوری اصولوں کے مطابق اپنے امیدواروں کو نا صرف منتخب کرنا ضروری ھے بلکہ ان نماہندگان کا ایماندار، دیانت دار اور باشعور ھونا بھی ضروری ہے۔ عوام کو ہر صورت برادری،ٹبر،علاقاہیت اور دیگر تعصبات سے الگ ہو کر ایک باجرات قیادت کو سامنے لانا ہو گا تانکہ عوامی ٹیکس کے ایک ایک پیسہ ترجیہی بنیادوں پر عوام کی امنگوں کے مطابق خرچ ہو سکے تبھی مقامی حکومتوں کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔باصورت دیگر یہ مقامی حکومتیں دو دھاری تلوار کی طرح اس ریاست کو قبیلاہی،علاقاہی،اور دیگر تعصبات کی دھار سے امن،محبت،ہم آہنگی اور ترقی کے خواب کو کاٹ کر رکھ دیں گی جس سے ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے۔
سیاست کے طالب علم اور عملی سیاست میں 35 سال گزارنے کی وجہ کے خود پر یہ فرض سمجھتا ہوں کہ عوام کو مقامی حکومتوں کی افادیت اور اہمیت سے روشناس کرانے کے لیے علمی بصیرت اور ذاتی تجربات کو عوام کے سامنے پیش کیا جاہے۔ اسی سلسلے کی مزید کڑیاں آنے والے دنوں میں پیش کی جاہیںگی۔