نعمت خداوندی دین متین دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جو قیامت تک آنےوالے تمام انسانوں کی کامیابی کی ضمانت اور آخری علامت ہے، اللہ تعالٰی نے دین اسلام اور صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وسلم عطاء کرکے تمام انسانوں پر احسان عظیم کیا، یہ ایک ایسا آفاقی اور فطری مذہب ہے جس کی طرف انسان کھینچتے چلے آتے ہیں۔دین اسلام سے قبل عرب جہالت کی اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر
کٹ مرنا عام تھا، اس الہامی مذہب نے آتے ہی عرب سے جہالت کا خاتمہ کیا، علم و تہذیب کے دیے روشن کیے، ظلم وتشدد کا راستہ روکا، کمزور اور ناداروں کی داد رسی کی، ظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، مظلوموں کو حقوق دلوائے، عورت کو عزت دیا، چھوٹی معصوم بچیوں کو زندہ درگور کرنا بند کروایا، الغرض عرب معاشرے سے بےپناہ برائیوں کو ختم کرکے اسے پرامن اور بھائی چارگی والے معاشرے میں تبدیل کردیا۔اسلام کی اس مقبولیت وافادیت کو دیکھ کر وقت کے کفار جو مذہب عسائیت میں بےپناہ تحریفات واختراعات کرکے اپنی مرضی کے دین میں تبدیل کر چکے تھے، انہیں اسلام کی تبلیغ وترویج سے تکلیف ہوئی، انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ جلد ہی ہمارے جھوٹ اور ملمع سازی کا قلع قمع کردیگا، اس لیے انہوں نے اسلام کی اشاعت اور اسکی تعلیم و ترویج کو روکنے کےلیے ہر محاذ پر منصوبہ بندی کی، اور ہر اس راستے کو بند کرنے کی کوشش کی جس راستے سے اسلام کی اشاعت کا شبہ تھا، خصوصاً دین اسلام کی تعلیم وتعلم کی راہ کو خاص نشانہ بنایا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہی راستہ ہے جو اسلام کی تدوین و ترویج اور اشاعت و تبلیغ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ اس راہ میں روکاوٹ پیدا کرنے کےلیے انہوں نےایک سازش سوچی، کہ صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں جو صحابہ سب سے زیادہ دین اسلام اور قرآن کا علم رکھنے والے ہیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے ختم کردیا جائے، تاکہ دین اسلام کی اشاعت
و تبلیغ کا راستہ روکا جاسکے، اس منصوبے پر عمل کرنے کےلیے انہوں نے 70 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو کہ قرآن مجید کے حفاظ و علماء تھے، دھوکے سے بلوایا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں،لہذا صحابہ ہمیں دین اسلام اور قرآن کی تعلیم دینگے، اس بہانے سے اپنے ہاں لےجاکر تمام صحابہ کو شہید کردیا گیا۔اس کے بعد سے لیکر آج تک یہود ونصاریٰ اور ان کے پیروکاروں نے دین اسلام کو کچلنے اور اس کی ترویج واشاعت کو بند کرنے کےلیے دین اسلام کا علم رکھنے والے
شخصیات اور اس کی تعلیم سکھانے والے اداروں کو ختم کرنے میں اپنی کامیابی سمجھی ہے، جس کی وجہ ہر دور میں اس کے خلاف ہر قسم کی طاقت کا استعمال کرتے رہے ہیں۔تاریخ گواہ کہ جب بھی انہیں موقعہ ملا ہے تو دین اسلام کو مٹانے کےلیے انہوں نے اس کی تعلیم و تعلم کو بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے واقعات سے تاریخ کے اوراق رنگین ہے جہاں بھی یہود و نصاریٰ کو طاقت ملا انہوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں کو مسمار
کیا ، مسجدوں کو کلیساٶں میں تبدیل کیا ، مساجد پر مرقوم قرآنی عبارات اور شاندار خطاطی کو مٹا کر صلیب لٹکایا ، علماء کا قتل عام کیا، مسلمانوں کی مذہبی کتابوں، احادیث اور تفاسیر و قرآن مجید کے نسخوں اور اس کے علاوہ دین اسلام سے متعلق ہر قسم کی کتابوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلایا گیا، لاکھوں کتابوں پر مشتمل کتب خانوں اور لائبریریوں کو جلایا گیا۔ صرف اندلس ہسپانیہ میں جب بزدل حکمران ابوعبداللہ نے مسلمان افواج کے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پر دستخط ثبت کرکے
مسلمانوں کے آٹھ سوسالہ اقتدار و اختیار عیسائیوں کے حوالے کیا، تو عیسائیوں نے اندلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا، علماء کو گرفتار کرکے دردناک سزائیں دی گئی، لاکھوں کتابوں پر مشتمل کتب خانوں کو نذرآتش کیا گیا، صرف باب الرھلہ کے مقام پر 80ہزار کتابوں اور نایاب مخطوطات کو خاک سیاہ کیاگیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ اسلام دشمن قوتوں نے اسلام کو ختم کرنے کے غرض سے ایسا کیا ہو، بلکہ روز اول سے
باطل کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جہاں بھی انہیں موقعہ ملا ہے انہوں نے اسلام کی علم و تمدن کو ختم کرنا اپنا فرض اول سمجھا ہے۔ تاریخ کے اوراق زرا پلٹ کر دیکھے کہ بغداد میں کیا کچھ نہ ہوا، سقوط بغداد کے وقت تاتاریوں نے جہاں بغداد میں قتل عام کیا، علماء کو سولیوں پر جھولا گیا، بلند وبالا پرشکوہ عمارتوں کو نذرآتش کیا، عزتوں کو پامال کیا وہی اسلامی تہذیبی و تمدنی میراث کو ختم کرنے کےلیے بغداد کی مشہور عالم لائبریری کو بھی برباد کردیا، جس کی کتابوں کی راکھ سے دجلہ
کا پانی کئی روز تک سیاہی چھوڑتا رہا۔ مشرق میں ہلاکو خان نے مسلمانوں کی تعلیمی و تمدنی میراث کا ذخیرہ برباد کیا، اور مغرب میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو اپنے حقیقی تمدن کے راستے سے بھٹکنے کےلیے وہی کام انجام دیا۔اسی طرح ماضی قریب میں آتے ہیں تو ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ کے بعد انہوں اسلام کو مٹانے کی کونسی کسر چھوڑی، چھوٹے چھوٹے بہانوں پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا، اسلام کے معلموں اور محافظوں کو کیسی کیسی سزائیں دی گئی،
ایک خاص منصوبے کے تحت عوام کو علماء سے دور رکھنے کی سازش تیار کی گئی، تاکہ نہ عوام علماء کے پاس جائینگے نہ ہی انہیں دین اسلام کی حقیقی روح معلوم ہوسکی گی، علماء کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا گیا، مدارس کو ختم کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہے، 1857ء جنگ آزادی کے بعد علماء کے ساتھ کیسا درد ناک رویے اختیار کیا گیا، علماء کا ایسا قتل عام کیا گیا کہ ہندوستان کے ہر درخت کے نیچے علماء کی لاشیں لٹکتی رہی، یہ اسلام کو مٹانے کی کوشیشیں نہیں
تو اور کیا تھا۔دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور اس کے پیروکار اپنے پرانے طریقے پر عمل پیرا ہیں، وہ اسلام کی حقیقی روح مٹانے کےلیے اسلام کے قلعوں مساجدو مدارس کو ختم کرنے کے درپے ہے، وہ اسلام کا نام مٹانے کےلیے علماء ، مساجد و مدارس کا خاتمہ ضروری سمجھتے ہیں، اسی لیے کبھی دہشت گردی کا الزام لگا کر مدارس پر پابندیاں لگاتے ہے تو کبھی دھشت گردوں کی پناہ گاہ کا الزام لگا کر بمباری کرتے ہیں، کبھی دہشت گرد کا الزام لگا علماء کو گرفتار
کیا جاتا ہے، تو کبھی براہ راست بمباری کے زریعے شہید کردیا جاتا ہے۔ گلہ ان سے نہیں کیونکہ وہ تو ہے ہی اسلام دشمن، ان کا تو کام ہی اسلام کو ختم کرنا ہے، افسوس ان روشن خیال مسلمانوں پرہوتا ہے جو ان تاریخی حقائق سے منہ چھپائے کفار کے ہم نوا بن کر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ خدا را تاریخ سے منہ چھپانے بجائے تاریخ سے سبق سیکھے، کہ ان کفار نے مسلمانوں کیساتھ کیا کچھ نہ کیا، وگرنہ کہیں سقوط غرناطہ و سقوط بغداد کی تاریخ دوبارہ دہرائی نہ جائے۔