غلام ، جو ہوا کانگریس سے آزاد

افتخار گیلانی

برطانوی پارلیمانی جمہوری نظام کی جو مسخ شدہ صورت ، جنوبی ایشاء میں راءج ہے، نے کئی ایسے لیڈروں کو بام عروج تک پہنچانے کا کام کیا ہے ، جن کی کبھی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی ۔ مگر انہوں نے حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں اتنے اہم عہدے حاصل کئے کہ منتخب نمائندے بھی ان کے آگے دم ہلاتے نظر آتے ہیں ۔ بھارتی سیاست پر اگر نظر دوڑائی جائے، تو اس قبیل کے لیڈروں میں فی الفور آنجہانی ارون جیٹلی، سابق نائب صدر وینکیا نائیڈو، پریم چند گپتا، مکھن لال فوطیدار، آنجہانی امر سنگھ،راجیو شکلا ، مرحوم احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد کا نام ذہن میں آتا ہے ۔ ان میں سے بس چند ہی ایسے تھے، جوایک آدھ پنچایت یا لوکل کونسل کا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیتنے کی سکت رکھتے ہوں ، ورنہ یہ صرف اپنے جوڑ توڑ، مہربان قسمت اور حکمت عملی ترتیب دینے کی وجہ سے’’ماسٹر اسٹریٹجسٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوکر پارٹی اور اسکی اعلیٰ لیڈرشب کےلئے نہایت ہی اہمیت حاصل کرگئے ہیں ۔

گو کہ بھارت میں پچھلے کئی برسوں سے مقتدر اور عوامی لیڈروں کا اپوزیشن کانگریس پارٹی سے اخراج ہو رہا ہے، مگر آزاد جیسے شخص کا حال ہی میں پارٹی کو خیر باد کرنا اور پھر پارٹی صدر سونیا گاندھی اور انکے صاحبزادے راہول گاندھی کو اپنے خط میں معتوب ٹھہرانا، ایک ایسا واقعہ ہے جس سے کانگریس کو واقعی ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ کیونکہ آزاد کی پوری سیاست ہی گاندھی خاندان کے اردگرد ٹکی ہوئی تھی، اورگڑکیوں کے باوجود وہ ان کا دس بدستہ غلام تھا ۔ اگر اس طرح کا لیڈر بھی اب گاندھی خاندان کو بے اثر ،بے وقعت اور اپنے کیریر کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو، تو معلوم ہوناچاہئے کہ اس پارٹی کی حالت واقعی قابل رحم ہے ۔ تین سال یعنی 2005 سے 2008تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نئی دہلی میں سینئر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں تک ممبر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں ۔

ان کا تعلق جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع یعنی چناب ویلی کے بھلیسہ علاقہ کے گنڈو تحصیل کے ایک دور دراز دیہات سوتی سے ہے ۔ یہاں جانے کےلئے ابھی تک باقاعدہ سڑک نہیں ہے ۔ گو کہ 1973 میں کانگریس نے انکو بھلیسہ بلاک کا سیکرٹری بنایا ، مگر وہ اس علاقے میں نیشنل کانفرنس کے مقابلے بلدیاتی انتخاب تک جیت نہیں پائے ۔ 1977 کے اسمبلی انتخاب اندروال حلقہ سے 900ووٹ لیکر انکی ضمانت ضبط ہوئی ۔ مگر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور انکے صاحبزادے سنجے گاندھی نے شاید انکی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرکے انکو پہلے جموں و کشمیر پردیش یوتھ کانگریس کا اور بعد میں 1980 میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا ۔ اسطرح و ہ سنجے گاندھی کے ان مصاحبین میں شامل ہوگئے، جو بعد میں ہوائی حادثہ میں انکی موت کے بعد نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے آنکھ اور کان بن گئے ۔ چونکہ جموں و کشمیر سے ان کا جیتنا ناممکن تھا، اسلئے 1980 اور 1984 میں انکو کانگریس نے دوبار مغربی صوبہ مہاراشٹر کی واشم لوک سبھا نشست سے جتوا دیا ۔ 1982 میں ہی اندرا گاندھی نے انکو ڈپٹی منسٹر بنایا اور تب سے وہ کانگریس دور میں مسلسل وزیر یا پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجمان رہے ۔ انتہائی زیرک اور چالاک سیاستدان ہونے کے ناطے ان کو شاید علم تھا کہ کانگریس میں ان کا وجود کشمیری اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے، اسلئے وہ بھی پارٹی میں کسی دوسرے اپنے جیسے چالاک مسلمان سیاستدان کو برد اشت نہیں کرتے تھے اور انکو زچ کرکے باہر کی راہ دکھا کر یا آزردگی کی حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور کرواتے تھے ۔ 1990 کے بعد وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اکثر کانگریسی لیڈران جنہوں نے دہلی اور جموں میں پناہ لی تھی اور وہ مرکزی کانگریس میں کسی رول کے خواہاں تھے کا کہنا ہے کہ ان کا کیریر آزاد نے برباد کردیا ۔

1998 میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی، تو ان کے سیاسی مشیر مرحوم احمد پٹیل کے ساتھ ان کی خاصی ان بن رہتی تھی، جس کی وجہ سے آزاد کو کئی بار ایک طرح سے بن باس بھیجا گیا ۔ مگر ان کے معتقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندو دیوتا بھگوان رام 14سالہ بن باس کے بعد کامیاب و کامران لوٹ آئے، اسی طرح آزاد بھی بن باس سے کامیابی کے ساتھ واپس آتے گئے ۔ غالباً سن 2000 میں انکو جموں و کشمیر کی پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر متعین کیا گیا ۔ کئی ماہ تک وہ سرینگریا جموں اسکا چارج لینے کےلئے ہی نہیں جارہے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو کشمیری کے بجائے ایک مرکزی لیڈر کہلوانا پسند کرتے تھے ۔ اس لئے اب ایک طرح سے یہ طے تھا کہ انکا کیریر بطور مرکزی لیڈر اختتام کو آپہنچا ہے اور چونکہ جموں کے ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ چلے گئے تھے اور وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کسی اور پارٹی کو سیاسی جگہ دینے کی روادار نہیں تھی، اسلئے کانگریس کےلئے سیاسی زمین ڈھونڈنا ناممکنات میں سے تھا ۔ ویسے بھی اس خطے میں کانگریس بھی مسلمانوں کا خوف دلا کر ہی جموں کے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کرتی تھی ۔ یہ کارڈ اب بی جے پی کے پاس تھا ۔ مگر اس کو قسمت کہئے کہ 2002کے انتخابات میں کانگریس کو 20نشستیں حاصل ہوئی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر اس نے حکومت بنائی ۔ 2005 میں یعنی تین سال بعد 1975کے بعد پہلی بار انہوں نے بطور کانگریسی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا ، مگر 2008 میں وادی کشمیر میں 99 ایکڑ جنگل اراضی ہندووں ;39;شری امرناتھ جی یاترا;39; کا انتظام و انصرام دیکھنے والے بورڈ کو منتقل کر دینے سے جب پْرتشدد احتجاجی لہر شروع ہوئی ، تو ان کی اتحادی پی ڈی پی نے حمایت واپس لیکر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا ۔ مگر اگلے ہی سال وہ پھر مرکزی سرکار میں بطور وزیر صحت نظر آئے اور پارٹی میں ان کے مخالفین زمین پر لوٹتے دکھائی دئے ۔

کشمیر کے بن باس سے واپسی کے بعد پارٹی میں انکے مخالفین نے انکو مزید زچ کرنے لئے 2004کے عام انتخابات سے قبل آندھرا پردیش کا انچارج بنوادیا ۔ اس صوبہ میں ان دنوں وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کا طوطی بولتا تھا ۔ ان کی تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) مرکز میں بی جے پی کی ایک اہم حلیف جماعت تھی اور اسی کی وجہ سے ہی ا ٹل بہاری واجپائی کی حلومت ٹکی ہوئی تھی ۔ معاشی پالیسیوں اور صوبہ کو کمپویٹر صنعت کا مرکز بنانے کےلئے کئی بین الاقوامی جریدوں نے نائیڈو کی کارکرگی کو سراہتے ہوئے کور اسٹوریز کی تھیں ۔ تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے واجپائی حکومت کی واپسی اور نائیڈو کی کامیابی کے اشارے دے رہے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں چند دیگر ساتھیوں کی معیت میں یہ انتخاب کور کر رہا تھا کہ حیدر آباد سے محبوب نگر جاتے ہوئے چائے پینے کےلئے ایک ڈھابے پر رکا، معلوم ہوا کہ کانگریس پارٹی کی ایک ریلی آرہی ہے ۔ ریلی میں ایک وین کی چھت سے آزاد اور مقامی کانگریس لیڈر راج شیکھر ریڈی ہاتھ ہلاکر لوگوں سے کانگریس کو ووٹ ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے ۔ آزاد نے ہمار ی طرف دیکھ کر بھی ہاتھ ہلایا اور شاید کچھ کہہ بھی رہے تھے ۔ ریلی کے گذرنے کے بعد ایک گاڑی ہمارے سامنے رکی اور استفسار کیا کہ کیا ہم دہلی سے آئے ہوئے صحافی ہیں اور بتایا کہ دس کلومیٹر دور اسی سڑک کے کناے ایک ڈاک بنگلہ میں آزاد لنچ کریں گے اور انہوں نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ اس دوران وہ ہم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ لنچ کرتے ہوئے ان سے خاصی گفتگو ہوئی ۔

خیر تمام تر رائے عامہ کے جائزوں کو پس پشت ڈال کر اس صوبہ میں چندرا بابو نائیڈو کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کو 41 میں 36سیٹیں حاصل ہوئی ۔ اس ایک صوبہ نے واجپائی حکومت کوبے دخل کرکے اگلے دس سالوں تک من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اسی طرح جنوبی صوبہ تامل ناڈو میں دو بار اور چھتیس گڈھ اور جھار کھنڈ میں بطور انچارج دیگر سیکولر جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کے تا ل میل اور اتحاد کی وجہ سے انہوں نے کانگریس اور اسکی اتحادی پارٹیوں کو کامیابی دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ اسی لئے آزاد کے ساتھ ایک سرد جنگ کے باوجود ، گاندھی خاندان مشکل حالات میں آزاد کو ذمہ داریاں تفویض کرتا تھا ۔ کانگریس کے اکبر روڈ صدر دفتر میں تو یہ زبان زد و خاص عام تھا کہ آزاد کے ہاتھ میں چراغ جلتا ہے یعنی نہایت ہی قسمت والا ہے اور کڑ کڑ کرنے یا رنجیدہ ہو کر خول میں بیٹھنے کے بجائے سزا کو بھی جزا میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ وہ 1996 سے لگاتار ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن رہے اور 2014سے اس ایوان میں لیڈر آف اپوزیشن تھے ۔

آزاد کانگریس پارٹی کا ایک ایسا ’مسلمان‘ چہرہ تھا جس کو وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرتی تھی ۔ تاہم بھارت میں بی جے پی اور ;39;ہندو نیشنلسٹ سیاست;39; کے عروج کے بعد کانگریس نے انہیں مبینہ طور پر نظرانداز کرنا شروع کر دیا ۔ 2018 میں لکھنو میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی طرف سے یوم سر سید کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ ’’ 1973ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لیکر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو لیڈر، ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لیجانے کیلئے بے تاب ہوتے تھے ۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کیلئے 95فیصد درخواستیں ہندو لیڈروں کی آتی تھیں ، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں ۔ میں نے اپنے انتخابی کیریئر کا آغاز ہی 1980ء میں مہاراشٹرہ کے ہندو اکثریتی لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا ۔ یوتھ کانگریس کے دنوں سے لے کر اب تک میں نے ملک بھر میں پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلائی ہے لیکن اب پارٹی کے امیدوار مجھے ہندو اکثریتی علاقوں میں بلانے سے ڈرتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر میں انتخابی مہم کا حصہ بن گیا تو پتہ نہیں اس کا رائے دہندگان پر کیا اثر ہو گا ۔ ‘‘ وہ اکثر فخراً یہ کہتے تھے کہ ان کا سیاسی کیریر اقلیتی سیاست کے بجائے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہون منت ہے ۔

بطور وزیر صحت مجھے یاد ہے کہ ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر ملوں ۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کیلئے کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا بیٹ کا ایک حصہ تھا ۔ خیر آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹرز پہنچا اور ان کے پی ۔ اے راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کیلئے کہا ۔ جنوبی بھارت کا یہ سانوالا گھٹے جسم کا مالک پی ۔ اے ان کا خاصہ نک چڑھا ملازم تھا ۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں ۔ اسکے علاوہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آرہے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے ۔ میں نے انکو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے ۔ قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد پی اے نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کیلئے آنے کو کہا ۔ کیونکہ کل وزیر دہلی سے باہر ہیں ۔ میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ آج ملاقاتیوں کی لسٹ میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں ۔ ’’ہ میں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں او راسکا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو ۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم اور مسلمان زیادہ ہیں ۔ ‘‘ راما چندرن کی یہ توضیح سن کر میں چکرا گیا ۔ لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ آزاد صاحب خاص طور پر اسوقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے ہیں ۔ راما چندرن کی سیکولر ازم کی اس طرح کی توجیح کا شاید ان کو علم ہوگیا تھا اور بعد اسی لئے انہوں نے ضلع ڈوڈہ کے ہی ایک کشمیری مسلم افسر خالد جہانگیر کو آفس میں متعین کیا ۔ کیونکہ آزاد کے بارے میں انکی پارٹی میں عام تھا کہ وہ ناقابل پہنچ ہے اور ملاقاتیوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ راما چندرن جیسا ان کا پی اے تھا ۔ جہانگیر کی آمد کے بعد یہ شکوہ بڑی حد تک لوگوں کا دور ہوگیا ۔

آزاد کا طرز عمل ایک روایتی سیاستدان جیسا تھا ۔ وزارت صحت میں ان کے پیش رو تامل ناڈ کے انمبومنی رام داس نے مرکزی حکومت سے ایکریڈیٹڈ صحافیوں کو بہم صحت کی سہولیات ختم کر دی تھیں ۔ ایکریڈیٹڈ صحافیوں کی انجمن پریس ایسوسی ایشن نے جب آزادسے اسکو بحال کرنے کی درخواست کی، تو انہوں نے ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کو بلایا ۔ میں ان دنوں ایسوسی ایشن کا نائب صدر تھا ۔ انہوں نے مقررہ وقت پر اپنے سیکرٹری کے علاوہ وزارت کے سیکرٹری اور سینٹرل گورنمنٹ ہیلتھ سروس کے جوائینٹ سیکرٹری کو تمام فائلوں کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دے دیا تھا ۔ تاکہ بلمشافہ اس کا حل نکالا جائے ۔ افسران بضد تھے کہ یہ سروس صرف مرکزی حکومت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں کےلئے ہے اور صحافیوں کو چونکہ جوائنٹ سیکرٹری درجہ کی سہولیات دی گئی تھیں ، اس سے اس سروس پر بوجھ پڑتا ہے ۔ فائلوں پر کئی نوٹ لکھے گئے تھے ۔ ہم نے جب پوچھا کہ پچھلے کئی برسوں کا ڈیٹا نکالا جائے کہ کتنا بوجھ صحافیوں کی وجہ سے اس سروس پر پڑا ہے، آزاد نے اس گفتگو اور بحث کو ختم کرتے ہوئے ، افسران کو بتایا کہ ’’ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ پریس اس جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے ۔ چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ، ان کی بہبودی کا خیال رکھنا لازمی ہے ۔ ‘‘ بس اگلے چند دن کے بعد ہی یہ سروس بحال کر دی گئی ۔ مگر افسران نے ڈھنڈی یہ ماری کہ اس میں صحافیوں کی فیملی کو شامل نہیں کیا ۔ جب دوبارہ ان کے نوٹس میں لایا، تو فیملی کو بھی شامل کردیا گیا ۔ ایک روایتی سیاستدان اس طرح کی ویلفیر سروسز کو خزانہ عامرہ پر بوجھ تصور نہیں کرتا ہے ۔ ویسے بھی یہ سروس بڑے میڈیا ہاوسز کے صحافی استعمال نہیں کرتے تھے ۔ چھوٹے میڈیا ہاوسز سے منسلک اور ریٹائرڈ معمر صحافیوں کےلئے یہ ایک طرح کی سوشل سیکورٹی تھی ۔

خیر چونکہ آزاد نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی سیاست کا دوسرا دور جموں و کشمیر سے شروع کرنے والے ہیں ، اپنے سیاسی قد و قامت کی وجہ سے وہ جموں کی 33فیصد مسلم آبادی کےلئے ایک مداوا بن سکتے ہیں ۔ کشمیر میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور دیگر پارٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے اور جموں کی ہندو سیٹوں پر بی جے پی کے اثر و نفوذ کی وجہ سے شاید ہی انکی دال گل سکے، مگر جموں کی 43 نشستوں میں تقریباً 17 ایسی سیٹیں ہیں ، جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ یہ آبادی سیاسی طور پر یتیم ہونے کے علاوہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں بر ی طرح کھٹک رہی ہے ۔ اس خطے میں 1947 میں مسلم اکثریت کو بس چند ماہ میں اقلیت میں تبدیل کیا گیا تھا ۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ37ہزار افراد کا قتل کیا گیا ۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے ۔ اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ 1947 میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی ۔ وادی کشمیر میں 93 فیصد جب کہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی ۔ ۔

عسکریت پسندوں سے نپٹنے کے نام پر ایک دہائی قبل اس ایریا میں ہندو دیہاتیوں کو ولیج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکرمسلح کیا گیاتھا ۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں ۔ مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا ، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا گیاہے ۔ یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں ۔ لگتا ہے، کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کاروائی ہو رہی ہے ۔ تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دوہرا کر اس آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کرایا جاسکے ۔ 1948ء میں چودھری غلام عباس کے پاکستان چلے جانے کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کو کوئی مضبوط لیڈر شپ نہیں ملی ہے ۔ وادی کشمیر اور جموں کی مسلم آبادی میں ایک واضح فرق ہے ۔ کشمیر میں عمومی طور پر یکساں نسل و نسب کے برعکس جموں میں مسلمان پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی طرح قبیلوں اور برادریوں سید، مغل، جاٹ، سدن، گوجر، راجپوت وغیرہ کے بندھنوں میں گرفتا ر ہیں ۔ مگر خاص بات یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی یا مذہبی تحریکوں کا اس خطے پر خاصا اثر ہے ۔ چونکہ پونچھ ضلع سے اکثر طالب علم دارلعلوم دیوبند پڑھنے کےلئے آتے ہیں ، اس لئے جمعیت العلماء ہند سے بھی بیشتر افراد نسبت رکھتے ہیں ۔ وادی کشمیر کے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی لہریں وہاں نہیں پہنچتی ہیں ۔ بقول چودھری غلام عباس اس وجہ سے چاہئے سیاسی ہو یا مذہبی کشمیری مسلمان اپنے اندرونی لیڈروں کی آواز کو ہی حرف آخر تصور کرتے ہیں ۔

ویسے تو آزاد پر الزام ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے تئیں سافٹ کارنر رکھتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے نہایت ہی اہم موڑ پر کانگریس کا ہاتھ چھوڑ کر سیکولر قوتوں کو کمزور کیا ہے ۔ اگست 2019کے اقدامات کے بعد سے تو مرکزی حکومت کو لگتا ہے کہ اس نے ایک بجلی کی تار پر پاوٗں رکھا ہے، اور اسکو ہٹانے کی صورت میں کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے ۔ دوسری طرف بین الاقوامی برادی کو دکھانے کےلئے اسکو ایک منتخب حکومت لانے کی بھی جلدی ہے ۔ مگر وہ یہ منتخب حکومت کشمیری پارٹیوں یعنی پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں دینا نہیں چاہتی ہے ۔ اسکو خدشہ ہے کہ کشمیری پارٹیاں 2019کے بعد اٹھائے گئے کئی اقدامات کو واپس نہ کردیں ۔ اسلئے وہ وقتاً فوقتاً تجربات کرکے ایسی اسمبلی لانے کے فراق میں ہے، جو منتخب بھی ہو، اور جو مرکزی حکومت کے 2019کے اقدامات کی تائید بھی کرے ۔ جموں خطے میں مجموعی طور پر 23فیصد آبادی دلتوں پر مشتمل ہے، جن کو کشمیری پارٹیوں بشمول حریت کانفرنس نے کبھی گھاس نہیں ڈالی اور انکو ہندو وں کے ہی خاطے میں ڈالا ۔

آزاد اگر مرکزی حکومت کے مشن کے تحت نہیں آئے ہیں اور حقیقتاً آزاد سیاسی لیڈر کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں ، تو اس خطے کی 33فیصد مسلم آبادی اور 23فیصد دلت آبادی کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرکے اپنی سیاست کو دوام بخش کر فرقہ پرستوں کو بھی خاصی حد تک لگام لگا سکتے ہیں ۔ ان کے پاس آزادانہ سیاست کرنے کا بس یہی ایک راستہ ہے ۔ ورنہ ان کی اس دوسر ی سیاسی باری کو بھی ان کی غلامی کے دور کے ہی ایک ایکس ٹنشن طور پر یاد کیا جائیگا ۔