بلدیاتی انتخابات اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں

تحریر:عبداللّٰہ گلزار ہلاڑوی

۔اس وقت آزاد کشمیر میں سردیوں کے موسم کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔32 سال بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں اور گہما گہمی عروج پر ہے۔گو کہ مہذب معاشروں میں سیاست کو سیاست تک ہی محدود رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور سیاست کو سیاست تک محدود کرنے کے بجاۓ ذاتتیات انا خاندان ٹبر اور نہ جانے کس کس کی جنگ بنا دیا جاتا ہے۔راقم کی طرح کٸ لوگ بلدیاتی طرز سیاست کا پہلی دفعہ تجربہ کر رہے ہیں۔اس سے پہلے غالباً 1996 میں عدالت نے الیکشن سے ٹھیک ایک دن پہلے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کے لٸیے ملتوی کر دٸیے تھے اُس کے بعد 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت پہلی بار وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی سربراہی میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے جا رہی ہے۔گو کہ اس سے پہلے بھی مختلف سیاسی جماعتیں جنرل الیکشنز میں الیکشن کمپٸین کے دوران عوام کو بلدیاتی نظام کے سبز باغ دیکھا کر عوام سے ووٹ اور سپورٹ بٹورتی رہی ہیں لیکن کوٸ بھی اس نظام کی طرف نہ جا سکا اور اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہی تھی کی بلدیاتی نظام کے بعد اسمبلی ممبران محض قانون سازی تک محدود ہو جاتے اور عوام کی ترقی کے راستے کھل جاتے۔لیکن سردار تنویر الیاس سب کے برعکس بلدیاتی نظام کے سب سے بڑے حامی نکلے اور بلدیاتی انتخابات کروانے کے لٸیے کوشاں بھی ہیں۔گو کہ ابھی تک مختلف شکوک و شبہات کے باعث یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں شاید بلدیاتی الیکشن ملتوی ہو جاٸیں کیونکہ تحریک انصاف کے کچھ ممبران اسمبلی بھی وزیر اعظم کے اس اقدام سے نالاں نظر آتے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی چاہتی ہیں کہ الیکشن نہ ہوں اس حوالے سے وفاق نے بھی سیکیورٹی فراہم کرنے سے بھی معذرت کر لی اور وفاق کے اس اقدام نے حکومت آزاد کشمیر کی مشکلات میں مزید اضافہ بھی کر دیا کیونکہ آزاد کشمیر میں سیکیورٹی اتنی ہے نہیں کہ بیک وقت پورے کشمیر میں بلدیاتی الیکشنز کرواۓ جاٸیں۔اس سب کے باوجود بھی وزیر اعظم تنویر الیاس اپنے موقف سے ذرا برابر پیچھے نہیں ہٹ رہے اور ابھی تک عوام کو اور تمام بلدیاتی امیدواروں کو اپنی کمپٸین چلانے اور تیاری کا حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔بلدیاتی الیکشن ہوں گے یا ملتوی ہو جاٸیں گے اس بات کا صیح جواب کسی کے پاس فی الحال موجود نہیں لیکن بلدیاتی انتخابات کو لے کر راقم سمیت معاشرے کے ہر فرد کے اوپر کچھ معاشرتی ذمہ داریاں عاٸد ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ہم سب کا قومی فرض ہے۔اس ضمن میں سب سے پہلی ذمہ داری جو ہم پر عاٸد ہوتی ہے وہ ذاتیات اور انا کی جنگ سے باہر نکلنا ہے۔ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے برادری ازم ٹبر ازم ذاتیات اناپرستی سے باہر نکل کر عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دے۔معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ تمام تر وابستگیوں سے بالاتر ہو میرٹ پر صیح امیدوار کا انتخاب کیا جاۓ۔ایسے امیدوار کو منتخب کیا جاۓ جو عوامی کام کرنے کا اہل ہو جو دیانتدار پڑھا لکھا اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔جو لوگ محض الیکشن کے وقت عوام کے پاس آتے ہوں ایسے لوگوں سے اجتناب کیا جاۓ چونکہ بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم کردار گلی محلے کی سیاست کا ہوتا ہے اور ایسے میں ایک عوامی آدمی ہی نماٸندگی کا اہل ہوتا ہے۔جو لوگ سالہا سال عوام کے درمیان موجود نہ ہوں وہ عوامی مساٸل کو کیسے حل کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔موسمیاتی لوگوں سے اجتناب برتا جاۓ اور عوامی لوگوں کو سامنے لایا جاۓ جو گاٶں محلے کے مساٸل سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔اس ضمن میں جو سب سے بڑی ذمہ داری ہم سب کے اوپر عاٸد ہوتی ہے وہ ہے ایک دوسرے کا ادب و احترام۔اختلاف ہر جگہ پایا جاتا ہے لیکن اختلاف کو اس حد تک رکھا جاۓ کہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوۓ شرمندگی کا احساس نہ ہو۔الیکشن ایک دن ہوں گے اس کے بعد گاٶں محلے کو لوگوں کو ایک دوسرے کا دست و بازو بننا ہوتا ہے۔اسی لٸیے ادب و احترام کا دامن نہ چھوڑا جاۓ تمیز کے داٸرے میں رہتے ہوۓ اختلاف کریں۔یہ چند ایک گزارشات تھیں جو عام لوگوں کے گوش گزار کرنا راقم نے ضروری سمجھا باقی سب کا بھلا سب کی خیر ہو۔