تحریر۔جمیلہ خان
محنت اور اپنے کام سے لگن کے ساتھ انسان منزل کے حصول کی کوشش میں مگن رہتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت سے مقام و مرتبہ حاصل کرتا ہےحوصلے بلند ہوں تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ریاست جموں وکشمیر کی سیاست مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی کردار ادا کیا۔پونچھ ڈویژن اور خصوصاً وسطی باغ سے ایسی توانا آواز سیاست کے میدان میں صنف نازک کی طرف سے پہلی مرتبہ نمودار ہوئی۔جس نے مقامی سیاست کو لیکر دارالحکومت مظفرآباد کا رخ کیا۔بلند حوصلے کے حامل افراد اپنے لیئے مشکل میں بھی آپرچونیٹی نکالتے ہیں ۔جو چیز ان کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے اسے طاقت بناتے ہیں۔کہانیاں بہت سنی بلند حوصلے کے حوالے سے اور بہت سی مثالیں بھی ہیں ۔لیکن موجودہ ایم ایل اے و سیکرٹری پارلیمانی امور جیل خانہ جات بیگم امتیاز نسیم کے سیاسی سفر پر اگر نظر دوڑائیں ۔تو محترمہ اس کا عملی نمونہ ہیں۔محترمہ نے جب سفر کا آغاز کیا تو بہت کھٹن اور دشوار گزار سفر تھا۔لیکن محترمہ نے ہمت نہیں ہاری ۔جہاں ہمارے معاشرے میں خواتین کا سیاست میں آنا بہت مشکل ہے وہاں میڈیا میں ان کے کاموں کا چرچہ بھی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے ۔لیکن میڈم امتیاز کی میڈیا ٹیم جس راشد کشمیری اور راجہ سعید نے بھی اہم کردار ادا کیا۔میڈم نے انتھک محنت اور کرنل (ر) محمد نسیم خان مرحوم کے چاہنے والوں کی دعائیں رنگ لائیں اور میڈم ممبر اسمبلی کے عہدے پر براجمان ہوئیں۔گزشتہ الیکشن میں محترمہ بے جس طرح سردار تنویر الیاس کی مہم چلائی اور ساری قیادت کے شانہ بشانہ کردار ادا کیا وہ تاریخ کے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔بیگم امتیاز نسیم باغ کی آئرن لیڈی ہیں ۔جو مشکلات کو عبور کرتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں رہی۔پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ دل وجان سے منسلک رہتے ہوئے پارٹی قیادت کے تمام فیصلوں کو تسلیم کیا اور ہمیشہ پارٹی کے فوائد کو ترجیع دی۔ہم نے جھانسی کی رانی کے بارے میں تو سنا ہے کی جس نے اپنے خاندان کے راجا کے قتل کے بعد زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی اور مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک پرچم تلے جمع کر کہ انگریزوں کو وہ ٹکر دی جو صدیوں بعد بھی تاریخ کے اوراق پر انمٹ نقوش پیوست کیے ہوۓ ہے۔۔۔ لیکن جھانسی کی رانی کو خاندان کی قدامت پسندی، بچوں کی زمہ داریوں، اپنوں کی سازشوں اور غیروں کی نفرتوں کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔ لیکن بیگم امتیاز نسیم صاحبہ کو ان تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ باغ کے ہر دلعزیز اور محبوب لیڈر کرنل نسیم مرحوم، جنہوں نے مختصر عرصے میں سات ارب روپے سے زائد رقم باغ لا کر تیرہ آر سی سی پُل اور سڑکوں کا جال بچھایا، اور باغ میں برادری ازم، سیاسی ٹھیکیداری اور تعصبات مبنی سیاست کا قلعہ قمع کیا۔ کرنل نسیم مرحوم کی اچانک رحلت کے بعد ان کی شریک حیات بیگم امتیاز نسیم نے مشکل ترین حالات میں اپنی جماعت میں کرنل نسیم مرحوم کے جانثاران کی قیادت کا مشکل فیصلہ کیا۔ ایک طرف خاندان کے اندر بیگم امتیاز کی مخالفت، دوسری طرف ایک مذہبی اور قدامت پسند قبیلے سے تعلق کی بناء پر پردے کے نام پر بیگم امتیاز نسیم کی سیاست سے اختلاف، تیسری طرف پارٹی کے اندر شدید مخالفت، چوتھی طرف کم سن بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم کی زمہ داری اور سب کے بیچ پھنسی ایک خاتون جن کا حوصلہ چٹان کی طرح مضبوط، ارادے سمندر کی طرح گہرے، دانائی ہمالیہ کو چھوتی ہوئی اور ہمت جو انھیں کرنل نسیم مرحوم کی رفاقت میں ملی۔ ہر طرف سے بلند ہوتی صدا جو بیگم امتیاز نسیم کے خلاف اٹھتی رہی لیکن بیگم امتیاز نسیم نے ہر محاذ پر ڈٹ کر ہر طرح کی مخالفتوں کا سامنا کیا۔ داخلی سازشوں سے لے کر خارجی محاذ تک کر جنگ استقامت، ہمت، حوصلے اور دانائی سے لڑی۔ پارٹی کی مضبوطی اور کارکنان کو یکجا رکھنے میں دن رات محنت کی۔ جہاں پارٹی کے سابق امیدوار اپنے عہدے سمیت مسلم کانفرنس کی حمایت اور مہم پر چلے گئے، اور تمام اہم سیاسی عہدے داروں کو بھی مسلم کانفرنس کی مہم پر بھیج دیا وہاں آگے بڑھ کر بیگم امتیاز نسیم نے پارٹی کا جھنڈا اٹھایا اور پارٹی کو واضح اکثریت دلا کر یہ ثابت کیا کہ کرنل نسیم مرحوم کی اصل وارث صرف بیگم امتیاز نسیم ہی ہیں۔ اس جدوجہد میں بیگم امتیاز نسیم نے داخلی کردوغلوں سے لے کر خارجی مخالفین تک ہر کسی کو شکست دے کر پارٹی کا علم سر بلند کر دیا اور ثابت کیا کہ وہ باغ کی آئرن لیڈی ہیں جنہیں سیاسی محاذ پر شکست دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔۔۔ یقینا بیگم امتیاز نسیم حلقہ وسطی کی جھانسی کی رانی اور آئرن لیڈی ثابت ہوئیں۔۔۔ پارٹی نے ان تمام خدمات کے بدلے بیگم امتیاز نسیم کو خواتین کی مخصوص نشست سے ایم ایل اے بنا کر ایسی باہمت خواتین کے لیے حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کا پیغام دیا۔۔۔