چھوٹی پریشانی بڑی پریشانی سے بچاتی ہے

دنیا میں ہر حکمران کے مشیر ہوتے ہیں‘ یہ مشیر مختلف مسائل کے حل کیلئے حکمران کو مشورے دیتے ہیں‘ دنیا کے سب سے اچھے مشیر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے پاس تھے‘ ان کی تعداد 9 تھی اور یہ لوگ اس وجہ سے نورتن کہلاتے ہیں‘ یہ اپنے اپنے شعبے کے انتہائی ذہین اور ماہر لوگ تھے اور ان لوگوں کی وجہ سے اکبر نے پورے برصغیر جس میں اب سات ملک شامل ہیں پر انچاس سال 8 ماہ حکومت

کی اور اکبر اعظم کہلایا.اکبر کے نورتنوں میں بیربل نام کا ایک شخص بھی شامل تھا‘یہ انتہائی ذہین اور حاضر جواب شخص تھا‘ ایک دن کھانے کی میز پر بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا‘ چاقو پھسلا‘ بادشاہ کی کلائی پر لگا اور بادشاہ زخمی ہو گیا‘ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمد اللہ نکل گیا‘ بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’ میں زخمی ہو گیا ہوں۔مگر تم شکر ادا کر رہے ہو‘ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا‘‘ بیربل نے عرض کیا ’’حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے‘ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی‘ میرے خیال میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ بادشاہ کو یہ جواز پسند نہ آیا‘ اس نے گارڈز کو اشارہ کیا‘گارڈز نے بیربل کو بادشاہ کی ڈائننگ ٹیبل سے اٹھا کر جیل میں پھینک دیا‘بادشاہ اگلے دن شکار پر چلا گیا‘ شکار کے دوران وہ چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ اپنے لشکر سے بچھڑ گیا.وہ جنگل میں گم ہو گیا‘ ایک جنگلی قبیلے نے بادشاہ کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا‘ وہ اس قبیلے کی دیوی کو بھینٹ دینے کا دن تھا‘ اس دن جو بھی شخص ان کے ہتھے چڑھتا تھا‘ وہ اسے پکڑ کر دیوی کے سامنے ذبح کر دیتے تھے‘ وہ بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو بھی لے کر سیدھے قربان گاہ پہنچ گئے‘ بادشاہ نے انہیں سمجھانے کی بڑی کوشش کی‘ میں اکبر ہوں‘ میں بادشاہ ہوں مگر ان کا کہنا تھا رول از رول‘ ہم آج کے دن کسی اجنبی کی جان نہیں بخش

سکتے‘‘.انہوں نے اس کے ساتھ ہی اکبر کے تمام ساتھیوں کے سر اتار دیئے‘ اب اکبر کی باری تھی‘ انہوں نے اس کا شاہی لباس اتارا تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی‘ انہوں نے پٹی کے بارے میں پوچھا‘ اکبر نے بتایا کل میرا ہاتھ کٹ گیا تھا‘ انہوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا ’’ ہم دیوی کو داغی قربانی پیش نہیں کر سکتے‘ تم جا سکتے ہو‘‘ اکبرا عظم کو فوراً بیر بل کی بات یاد آ گئی‘ وہ واپس آیا‘ اس نے بیربل کو جیل سے نکالادوبارہ ڈائننگ ٹیبل پر بٹھایا‘ کل کی

غلطی پر معذرت کی اور پھر اس سے کہا ’’ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی‘ اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ کاٹ کر مجھے قتل ہونے سے بچا لیا لیکن تم ایک رات جیل میں رہے‘ قدرت نے تمہیں جیل میں رکھ کر کس مصیبت سے بچایا‘ بیر بل نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ حضور آپ اگر مجھے جیل نہ بھجواتے تو میں آج آپ کے ساتھ شکار پر جاتا‘ وہاں ان وحشیوں کے ہاتھ لگ جاتا اور وہ آپ کے دوسرے ساتھیوں کی طرح مجھے بھی ذبح کرتے‘ میرے اللہ نے آپ کو چھوٹے سے زخم کے ذریعے بچا لیا اور میری جان جیل کی ایک رات کے عوض بچا لی‘ آپ بھی شکر ادا کیجئے اور مجھے بھی کرنے دیجئے۔