تحریک آزادی کا نقطہ آغاز اور مرد کوہستانی

انتخاب فیضان شوکت

متحمل مزاج ، انقلابی شخصیت، زبردست تدبر و فہم و فراست کے مالک، تحریک آزادی کشمیر کے مسلمہ قائد، آزادی کشمیر کی صدارت، وزارت اعظمی اور پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین کے عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیت، میدان سیاست کے کہنہ مشق شہسوار سردار محمد عبدالقیوم خان 04 اپریل 1924 بروز جمعرات باغ کے گاوں غازی آباد میں پیدا ہوئے آپ کا بچپن سے لے کر عہد جوانی اور پھر زمانہ پیری تک کا سارا سفر مسلسل جدوجہد ، مشقت اور ریاضت سے عبارت ہے 23 سال کی عمر میں آپ نے تحریک آزادی کشمیر کے لیے کی جانے والی مسلح جدوجہد کی قیادت سنبھالی اور اور پھر سیاست میں جیل کی کال کوٹھڑی سے لے کر قصر صدارت کی روشنیوں تک مسلسل کاوشوں اور کشمکش کی ایک انوکھی اور بے مثال داستانیں رقم کی
قدرتی طور پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم المرتبت شخصیت کی تعلیم و تربیت کہاں ہوئی اور کن آزمائشوں اور تجربات نے اسے اپنی بھٹی سے نکال کر بام عروج پر پہنچایا؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ادارہ کسی ایسی شخصیت کو پیدا کرتا ہے۔؟کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ادارے نہیں ہیں جو شخصیات کو جنم دیتے ہیں بلکہ یہ عظیم شخصیات رب العزت کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہیں جو ادارے قائم کرتی ہیں۔میرے خیال میں خداوند کریم کائنات کے اندر مخصوص کردار ادا کرنے کے لیے موضوع وقت پر منتخب شخصیات کو پیدا فرماتے ہیں جنھیں خاص طرح کے حالات و واقعات پیش آتے ہیں اور تجربات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں اور بالآخر ان کی زندگی میں ایسا دور آتا ہے کہ جب وہ حالات و واقعات کے تابع نہیں رہتے بلکہ وقت اور حالات ان کے تابع ہو جاتے ہیں مجاہد اول بھی ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت تھے جنہیں قدرت نے ایک خاص مقصد کی تکمیل کے لیے دنیا میں بھیجا تھا ان کی ابتدائی زندگی کے حالات و واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حصول تعلیم کے لیے انہیں ہندوستان کے مختلف حصوں میں جانے کا اتفاق ہوا وہ غیر معمولی طور پر ذہین و فطین طالب علم تھے گھریلو ماحول انتہائی مذہبی تھا اس لیے آپ کی مذہبی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی تھی اس مذہبی ماحول اور تربیت کا اثر ان کی ساری سیاسی جدوجہد میں بہت نمایاں ہے اسلام کے لیے ان کی کوششوں کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاھیے مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی شخصیت کا ایک بڑا اہم پہلو تصوف تھا تصوف سے ان کا لگاو بچپن ہی سے تھا انہیں اپنے دور کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت اولیاء کی صحبت میسر رہی اور یہ ان ہی کاملین کی نظر کا اثر تھا کہ ملک بھر کے دینی حلقوں میں انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا تعلیم سے فراغت کے بعد آپ فوج میں بھرتی ہو گئے ،جہاں آپ نے فوجی تربیت حاصل کی اسی دوران میں فوج کی جانب سے آپ کو فلسطین میں تعینات کر دیا گیا یہ خطہ اس وقت بڑی اہم تبدیلیوں کی آماجگاہ تھا مجاہد اول کو اپنی فطری اور طبعی وابستگی کی وجہ سے ان تبدیلیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا فوج کے ساتھ ان کا قلبی و فطری رشتہ ہمیشہ قائم رہا آزاد کشمیر میں فوج اور سول کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے انہوں نے منفرد جدوجہد کی مجاہد اول کی کوششوں سے ملک کے اس انتہائی اور حساس ادارے کے لوگوں کو مسلہ کشمیر کی اہمیت اور نوعیت کو سمجھنے میں مدد ملی آپ کو کئی مرتبہ ملٹری اکیڈمی کا کول اور سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے خطاب کی دعوت دی گئی مجاہد اول وہ شخصیت ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر کی دضا کار فوج کی بنیاد رکھی اس کا پہلا سپاہی بھرتی کیا سیز فائر تک مختلف محاذوں پر کمان کی اور اس کے بعد سیاسی جدوجہد میں بھی شامل رہے
دوسری جنگ عظیم میں شرکت کے بعد 1946 میں آپ فوج سے واپس آئے تو اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ جب کبھی بھارت کے مسلمانوں کو آزادی ملے تو ریاست جموں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاھیے مجاہد اول نے 23 اگست 1947 کو نیلابٹ سے تحریک کا آغاز کیا مجاہد اول جس سیکٹر میں کمان کر رہے تھے وہ بہت بڑا علاقہ تھا جو کوہالہ سے پونچھ تک ستر اسی میل تک پھیلا ہوا تھا اس مسلح جدوجہد کے نتیجے میں آج خدا کے فضل و کرم سے ایک ایک پورا خطہ آزاد حثیت میں ہمارے پاس ہے
مجاہد اول نے بے پناہ مشکلات کے باوجود ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کا اسلامی تشخص قائم رکھا انہوں نے 1970 سے 1975 تک اسلامائزیشن کے لیے اقدامات کیے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا شریعت ایکٹ کا نفاذ کیا جس کی وجہ سے آزاد کشمیر میں قاضی و مفتی صاحبان کا تقرر ہوا
جب بھی ریاست اور ملک پاکستان کے اندر افراتفری، انتشار اور ہنگامہ آرائی کی صورت حال پیدا ہوتی تو سنجیدہ لوگوں کی نظریں مجاہد اول پر مرکوز ہوتی 1977 میں حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کی تحریک جب اپنے نقطہ عروج پر تھی تو ملک کے اندر و باہر ملک کی سلامتی اور بقا کے بارے میں چہ مگوئیاں ہونے لگی تھیں یہ شخصیت مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان ہی کی تھی جنہیں ذولفقار علی بھٹو نے ہیلی کاپٹر بھیج کر پلندری جیل سے اسلام آباد بلوایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ قومی مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کریں بھٹو صاحب نے سردار صاحب سے کہا کہ میرا استعفی آپ کے پاس ہے جب چاہیں پریس کانفرنس کر کے اس کا اعلان کر دیں سردار محمد عبدالقیوم خان نے اس موقع پر جو کردار ادا کیا وہ ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہے جس کا بخوبی ذکر اس وقت کی بھٹو کابینہ کے رکن مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی ” میں تفصیل سے کیا ہے مجاہد اول کی انہی غیر معمولی صلاحیتوں پر آپ کو "مرد بحران ” بھی کہا جاتا ہے
مجاہد اول ایک طویل عرصہ تک آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر رہے انہوں نے 1970 میں برسر اقتدار آکر پہلی مرتبہ انسانی حقوق اور شہری آزادیاں کا درجہ بڑھانے اور اس کو تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کرنے کے غیر معمولی اقدامات کیے سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب نے 1970 میں پہلی بار عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آکر بحثیت صدر آزاد کشمیر تعمیروترقی کا محکمہ قائم کیا انہوں نے تعلیم کے شعبہ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی اور بہت سارے سکول اور کالج قائم کیے صحت عامہ مواصلات اور لوگوں کو دیگر بنیادی ضروریات مہیا کی
صبر و تحمل ان کی شخصیت کا خاصہ تھا ملک کے اندر و باہر بےشمار لوگوں اور تنظیموں سے ان کے تعلقات تھے رابطہ عالمی کونسل کے مستقل ممبر کی حثیت سے بھی کشمیر کی آزادی اور قومی وقار کے لیے کام کرتے رہے آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سیاست، تاریخ مذہب اور انسانی نفسیات کے علوم پر کمال دسترس حاصل تھی
آپ نے 50 سے زاہد کتب لکھی جن میں "کشمیر بنے گا پاکستان ” مقدمہ کشمیر "نظریاتی کشمکش” کشمیر اور عالم اسلام "سیاست میں اخلاقی قدروں کی اہمیت” مذاکرات سے مارشل لاہ تک” خطبات ناروے” کشمیر کی دفاعی اہمیت” مسلہ کشمیر تحریک آزادی کشمیر اور مسلم کانفرنس کے کارکنوں کی ذمہ داریاں” اچھی حکمرانی” فتنہ افکار سنت” تعمیروترقی میں انتظامیہ کا کردار” تفسیر اور اٹکل پچو” آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کا نفاذ جبکہ انگریزی کتب میں In Search Of Freedom,The Kashmir Case,Miracles Of Holy Quran اور بےشمار تقاریر اور مقالے بھی مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہو چکے ہیں آپ وہ پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ اور اس کے عملی پہلو کے بارے میں لکھا
سردار محمد عبدالقیوم خان طویل عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے آپ نے 10 جولائی 2015 کو طویل علالت کے بعد وفات پائی آپ کی نماز جنازہ دو مرتبہ راولپنڈی اور بعد ازاں ان کے آبائی قصبے غازی آباد میں تین مرتبہ سردار رفیع خان مرحوم گراونڈ(ہیلی پیڈ) میں فرزند مجاہد اول سردار عتیق احمد خان نے پڑھائی نماز جنازہ میں پاکستان اور ریاست جموں کشمیر کی سیاسی ،سماجی اور عسکری قیادت کے علاوہ عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی آپ کو پورے فوجی اعزاز پاک فوج اور پولیس کے چاک و چوبند دستے کی سلامی کے ساتھ سپردخاک کیا گیا اور ان کی قبر کے ساتھ پاکستان آزاد کشمیر اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے جھنڈے نسب کیے گئے
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں